Today ePaper
Rahbar e Kisan International

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز: دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن کارروائیاں

Articles , Snippets , / Tuesday, March 11th, 2025

(تحریر احسن انصاری )

پاکستان کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور اسے مشرقی اور مغربی سرحدوں سے سنگین خطرات کا سامنا ہے۔ مغربی سرحد، جو افغانستان سے متصل ہے، سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے، جہاں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش-خراسان (ISIS-K) جیسے دہشت گرد گروہ سیکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ دوسری طرف، مشرقی سرحد، جو بھارت کے ساتھ ہے، سرحد پار دراندازی، جاسوسی اور ہائبرڈ جنگ کے خطرات سے دوچار ہے۔

ان خطرات سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے مختلف آپریشنز شروع کیے، انٹیلیجنس سرگرمیوں کو بہتر بنایا، سرحدی سلامتی کو مستحکم کیا اور علاقائی اتحادیوں کے ساتھ تعاون کو فروغ دیا۔ ان تیز رفتار اقدامات کا مقصد دہشت گردوں کا خاتمہ، غیر قانونی دراندازی کی روک تھام اور طویل مدتی قومی استحکام کو یقینی بنانا ہے۔

پاکستان-افغانستان سرحد دہشت گردی کا سب سے بڑا مرکز بنی ہوئی ہے۔ جب سے افغان طالبان نے 2021 میں اقتدار سنبھالا ہے، ٹی ٹی پی کے کئی جنگجو افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں بنا چکے ہیں اور وہاں سے پاکستان میں حملے کر رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا (KP) اور بلوچستان ان حملوں سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جہاں دہشت گرد فوجی چوکیوں، پولیس اسٹیشنز اور عوامی مقامات پر حملے کر رہے ہیں۔ ان حملوں کو روکنے کے لیے پاکستان کی مسلح افواج نے کئی بڑے فوجی آپریشنز کیے ہیں۔

آپریشن عزمِ استحکام 2024 میں شروع کیا گیا، جس کا مقصد خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ٹی ٹی پی اور داعش-خراسان کے دہشت گردوں کا خاتمہ ہے۔ اس آپریشن میں انٹیلیجنس پر مبنی چھاپے، فضائی حملے اور زمینی آپریشنز شامل ہیں تاکہ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو تباہ کیا جا سکے۔ پاک فوج اور انٹیلیجنس ایجنسیاں مل کر دہشت گردوں کے سرغنوں کو ختم کر رہی ہیں اور ان کی مالی اور لاجسٹک سپورٹ کو ختم کرنے پر کام کر رہی ہیں۔ اس آپریشن کا ایک اہم مقصد افغان حکام کے ساتھ بہتر تعاون قائم کرنا ہے تاکہ دہشت گردوں کو پاکستان پر حملے کرنے سے روکا جا سکے۔

اس سے قبل پاکستان نے آپریشن ضربِ عضب کامیابی سے مکمل کیا، جس کے نتیجے میں شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے مضبوط گڑھ ختم کر دیے گئے۔ اس کے بعد آپریشن ردالفساد کا آغاز کیا گیا تاکہ دہشت گردوں کو دوبارہ گروپ بندی سے روکا جا سکے اور ملک بھر میں ان کے خفیہ نیٹ ورکس کا خاتمہ کیا جا سکے۔ یہ آپریشنز دہشت گردی کی روک تھام میں مؤثر ثابت ہوئے، لیکن حالیہ حملے ظاہر کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خطرات اب بھی موجود ہیں۔

مغربی سرحد کو مزید محفوظ بنانے کے لیے پاکستان نے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔ 2,600 کلومیٹر طویل پاکستان-افغانستان سرحد کا 90 فیصد حصہ باڑ سے محفوظ بنا دیا گیا ہے، جس سے غیر قانونی دراندازی کو روکا جا رہا ہے۔ ہائی ٹیک نگرانی، ڈرونز، سی سی ٹی وی کیمرے اور نائٹ ویژن ٹیکنالوجی کو نگرانی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مزید برآں، اہم مقامات پر نئی فوجی چوکیوں اور تیز رفتار ردعمل دینے والی یونٹس کو تعینات کیا گیا ہے تاکہ دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے روکا جا سکے۔

پاکستان کی مشرقی سرحد، جو بھارت کے ساتھ ہے، مختلف قسم کے سیکیورٹی خدشات کا سامنا کر رہی ہے، جن میں سرحد پار دہشت گردی، جاسوسی اور ہائبرڈ جنگ شامل ہیں۔ پاکستان کئی بار بھارت کی خفیہ ایجنسی را (RAW) پر الزام لگا چکا ہے کہ وہ بلوچستان اور کراچی میں دہشت گرد گروہوں کی مدد کر رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششیں ایک عرصے سے جاری ہیں، اور کئی شواہد موجود ہیں کہ وہ علیحدگی پسند اور دہشت گرد عناصر کی مدد کر رہا ہے۔

ان خطرات کے پیش نظر، پاکستان کی انٹیلیجنس ایجنسیوں نے جاسوسی کے خلاف کارروائیوں میں اضافہ کیا ہے۔ سیکورٹی فورسز کے انٹیلیجنس یونٹس نے پاکستان میں سرگرم RAW کے کئی خفیہ نیٹ ورکس کو ختم کیا ہے۔ ان کارروائیوں کی بدولت متعدد دہشت گرد حملے روکے جا چکے ہیں اور ایسے عناصر کو بے نقاب کیا گیا ہے جو پاکستان کی قومی سلامتی کے خلاف کام کر رہے تھے۔

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے کنٹرول لائن (LoC) پر سیکیورٹی اقدامات بھی سخت کر دیے ہیں۔ پاکستان سیکورٹی فورسز نے نئی چوکیاں، مضبوط بنکرز اور نگرانی کے لیے جدید ٹاورز بنائے ہیں تاکہ بھارتی فوج کی کسی بھی دراندازی کو روکا جا سکے۔ کسی بھی قسم کی جنگ بندی کی خلاف ورزی کا فوری اور مؤثر جواب دیا جاتا ہے۔ مزید برآں، سائبر جنگ اور جعلی خبروں کی مہمات کے خلاف بھی پاکستان نے خصوصی سائبر یونٹس قائم کیے ہیں، جو ڈیجیٹل جاسوسی، آن لائن پروپیگنڈے اور دیگر سائبر خطرات کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کو بہت اہمیت دے رہا ہے۔ پاکستان نے افغان طالبان پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں اور انہیں پاکستان میں حملے کرنے سے روکیں۔ چین کے ساتھ سی پیک منصوبوں کی سیکیورٹی کے حوالے سے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں اور بلوچستان و گلگت بلتستان میں خصوصی سیکیورٹی فورسز تعینات کی گئی ہیں۔

پاکستان نے ایران کے ساتھ بھی سیکیورٹی تعلقات بہتر بنائے ہیں اور بلوچستان-ایران سرحد پر مشترکہ فوجی آپریشنز کیے ہیں تاکہ وہاں سرگرم دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ افغانستان کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ایک چیلنج بنا ہوا ہے، لیکن پاکستان مسلسل سفارتی بات چیت کر رہا ہے تاکہ سرحد پر بہتر کنٹرول قائم کیا جا سکے۔

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کر رہی ہیں۔ سیکورٹی فورسز کے آپریشنز، انٹیلیجنس پر مبنی چھاپے، جدید سرحدی سیکیورٹی اور بین الاقوامی تعاون جیسے اقدامات ملک کے دفاع کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ تاہم، دیرپا امن کے لیے ان کارروائیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی استحکام، معاشی ترقی اور علاقائی تعاون کی بھی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان ان تمام پہلوؤں پر کام جاری رکھے، تو وہ دہشت گردی کے خطرے کو کم کر سکتا ہے، اپنی سرحدوں کو محفوظ بنا سکتا ہے اور اپنے عوام کے لیے ایک پرامن مستقبل یقینی بنا سکتا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International