تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
پاکستان کے اندرونی مسائل بھی بہت زیادہ ہیں اور بیرونی مسائل بھی۔حالات بہت بگڑ چکے ہیں اوران پرقابو پانے کے لیےسخت جدوجہد کی ضرورت ہے۔پاکستان کا محل وقوع بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔انڈیا کا پڑوسی ہونے کے ناطے اکثر مسائل کا شکار رہتا ہے۔بین الاقوامی طور پر چین کی غیر معمولی ترقی بہت سی قوتوں کے لیے نا قابل برداشت ہے۔پاکستان اور چین کے درمیان انتہائی دوستانہ تعلقات ہیں اور یہ تعلقات بھی مخالفین کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔پاکستان یہ نہیں چاہے گا کہ چین کے ساتھ تعلقات خراب ہوں یا پاکستان کو چین کے خلاف استعمال کیا جا سکے،لیکن کچھ قوتیں چاہتی ہیں کہ پاکستان چین کے خلاف اٹھ کھڑا ہو۔ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اکثر تعلقات خراب رہتے ہیں۔سرد جنگ توہر وقت جاری رہتی ہے۔پاکستان ہمیشہ سےکوشش کر رہا ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اچھے رہیں لیکن انڈیا تمام کوششوں پر پانی پھیر دیتا ہے۔پاکستان اور انڈیا کے درمیان اکثر جھڑپیں دیکھنے میں نظرآجاتی ہیں اور تین کے قریب جنگیں بھی لڑی گئیں۔گزشتہ ماہ ایک دوسرے پر حملے کیے گئےاورحملوں میں پہل انڈیا نے کی۔پاکستان کی نسبت انڈیا کو زیادہ نقصان پہنچایا گیا،کچھ دن زیادہ جنگ جاری رہتی تو انڈیا کافی نقصان اٹھا لیتا لیکن بین الاقوامی برادری کی اپیلوں پر پاکستان نے جنگ روک دی۔انڈیا نے ہمیشہ پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے،یہ اور بات ہے کہ وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔چین نے پاکستان کا ہمیشہ ساتھ دیا اور پاکستان نے بھی دوستی کا حق ادا کیا ہے۔انڈیا اور پاکستان میں بگاڑ کااصل مسئلہ’مسئلہ کشمیر’ ہے۔جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات بحال نہیں ہوسکتے۔مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے قانون کے مطابق حق خود ارادیت کے تحت حل ہو سکتا ہے۔اس کے علاوہ کچھ دیگر مسائل بھی ہیں،لیکن ان پر قابو پایا جا سکتا ہے۔پاکستان کی مشرقی سرحد پر افغانستان واقع ہےاور افغانستان کے ساتھ بھی کچھ مسائل حل طلب ہیں۔ایران بھی پاکستان کا ہمسائیہ ملک ہے،اس کے ساتھ تعلقات خوشگوار ہیں لیکن کچھ طاقتیں ان دو ممالک کے تعلقات خوشگوار نہیں دیکھنا چاہتیں۔پاکستان اور ایران بھی متحدہوکر ایک دوسرے کے لیے بہت ہی فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔اس وقت ایران بھی اسرائیل کے ساتھ الجھ چکا ہے،پاکستان کوچاہیے کہ اس مشکل وقت میں ایران کا ساتھ دے۔ایران پر اگر کسی دوسری طاقت کا قبضہ ہو گیا تو پاکستان بھی خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔جس طرح ایٹمی ایران مخالفین کے لیے ناقابل برداشت ہے،اس طرح ایٹمی پاکستان بھی ناقابل برداشت ہے۔ایران کی مدد کر کے پاکستان اپنا مستقبل محفوظ بنا لے گا۔انڈیا اگر ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتاتو اس کے خلاف بھی ایکشن لیا جا سکتا ہے۔
جس طرح بیرونی مسائل ہیں اسی طرح پاکستان اندرونی مسائل کا بھی شکار ہے۔پاکستان میں سیاسی عدم استحکام نےمعیشت کی چولیں ہلا دی ہیں۔کمزور معیشت نے ملک کو بدترین دلدل میں دھکیل دیا ہےاور سخت کوششوں کے بعد بھی معیشت مستحکم نہیں ہو رہی۔یہ اور بات ہے کہ سیاست دان پاکستان کی معیشت کو خود ہی غیر مستحکم کر رہے ہیں۔عوام کا جینا محال ہو چکا ہے۔جب تک پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آجاتا اس وقت تک معاشی استحکام بھی نہیں آئے گا۔اب بھی وقت ہے کہ پاکستان کو سیدھے راستے پر لگایا جا سکتا ہے۔قوموں پر مشکل حالات آتے رہتے ہیں لیکن وہ قوم آسانی سے نکل جاتی ہے جو نکلناچاہے۔مسائل سے نکلنے کے لیے جدوجہد ضروری ہوتی ہےاور جدوجہد کے علاوہ میرٹ،انصاف،خلوص نیت اور اتحاد بھی ضروری ہوتا ہےبلکہ کچھ اور بھی خصائل ہیں جن سے مشکلات سے نکلنے میں مدد ملتی ہے۔پاکستانی سیاستدانوں کی نااتفاقی ملک کو پہلے ہی کافی نقصان پہنچا چکی ہےاور مستقبل میں مزید نقصان پہنچائے گی اگر سیاستدانوں نے اپنا قبلہ سیدھا نہ کیا۔اداروں اور عوام میں بھی وہ خلوص نہیں پایا جاتا جو ضروری ہے۔خلوص کے علاوہ ایک دوسرے سےتعاون بھی ملک کو استحکام بخشتا ہے۔پاکستان میں جہاں سیاستدان تنقید کی زد میں آتے ہیں وہاں عوام پر بھی تنقید کی جا سکتی ہے کہ وہ خود ایسی جدوجہد کیوں نہیں کرتی جس سے حالات سدھر جائیں۔پاکستان کے مسائل پاکستانیوں نے خود ہی حل کرنے ہیں،دوسروں کو پاکستانیوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔یہ درست ہے کہ دوست ممالک کاتعاون بھی ضروری ہے،لیکن اصل مسائل پاکستانی قوم نے خود ہی حل کرنے ہیں۔پاکستان اب بھی آگے بڑھ سکتا ہے اور عالمی طور پر بھی اپنی اہمیت منوا سکتا ہے،اگر قوم متحد ہو کرمسائل کو حل کرنے پر متفق ہو جائے۔ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ ان میں اضافہ ہوتا ہے۔پاکستان میں بڑھتی مہنگائی پر بھی قابو پایا جا سکتا ہے اگرکوشش کی جائے۔رشوت،چور بازاری،کرپشن،میرٹ کی پامالی اور دیگر کئی برائیاں ہیں،جن پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔اگر ان برائیوں کو کنٹرول کر لیاجائے تو پاکستان کو ترقی یافتہ بنانے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
پاکستان کہ جتنے بھی اندرونی یا بیرونی مسائل ہیں،سب کو حل کیا جا سکتا ہےلیکن اس کے لیے قوم کومتحد ہونا ہوگا۔قوم کے درمیان جتنے بھی اختلافات ہیں،ان کو فوری طور پر حل کرنے کی کوشش کی جائے۔جو اختلافات زیادہ بڑھے ہوئے ہیں ان کومستقبل میں حل کرنے کی کوشش کی جائے۔فوری طور پرپاکستان کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے جو دنیا میں اپنا آپ منوا سکے۔معیشت کی مضبوطی کے لیےحقیقی طور پر آزاد پالیسیاں بنانا ہوں گی۔آئی ایم ایف سمیت ہر قرض دینے والے سے جان چھڑانی ہوگی تاکہ سودسے بھی جان چھوٹ جائے۔خود مختار طور پر پالیسیاں بنا کر ملک کو آگے لایا جا سکتا ہے۔خود مختارہو کر چین یا کسی دوسرے ملک کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات بڑھائے جائیں۔پاکستان اپنے مفاد کو پیش نظر رکھے۔ایران پر قبضہ پاکستان کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا،اس لیے ضروری ہے کہ ایران کا ساتھ دیا جائے۔جو ملک پاکستان کے ساتھ تعلقات رکھنے کی کوشش کرے اس کو مثبت جواب دیا جائے۔یقینا پاکستان تا قیامت قائم رہے گا۔بات صرف اتنی ہے کہ مثبت اقدامات اٹھائے جائیں۔پاکستان کے دشمن بے شمار ہیں،لیکن انشاءاللہ منہ کی کھائیں گے۔پاکستان کے اندرونی یا بیرونی مسائل اتنےخطرناک بھی نہیں ہیں کہ پاکستان آگے نہ بڑھ سکے۔اس کا بھی اعتراف کرنا ضروری ہے کہ پاکستان کو کمزور بھی یہی مسائل کر رہے ہیں۔یہ تو ہر ایک جانتا ہے کہ ایٹمی پاکستان محفوظ ہے۔اسی طرح معاشی اور سیاسی لحاظ سے بھی مضبوط ہو جائے۔میرٹ اور انصاف کا بول بالا ہو تو پاکستان سپر پاور کا ٹائٹل بھی حاصل کر سکتا ہے۔
Leave a Reply