rki.news
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
تمام افراد مل جل کر سماج میں چونکہ رہتے ہیں۔اس لیے ان کی ترجیحات بھی ہوتی ہیں۔ان ترجیحات کے مطابق زندہ رہنا بھی پسند کرتے ہیں۔یہ حقیقت تو اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ کہ بعض اوقات انسان اپنے آپ سے بھی سوال کرتا ہے کہ ”کیا لکھوں زندگی کا احوال“اس ضمن میں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ کاٸنات ایک گلشن جمیل ہے۔اس کی دلکشی اور خوبصورتی سے زندگی بھی تو حسین و جمیل ہے۔لیکن جب انسان کا کردار منفی روپ اختیار کر لیتا ہے تو معاشرتی فضا کچھ اداس سی ہوتی ہے۔حالانکہ زندگی تو بے مثال وہی ہوتی ہے جہاں چین اور سکون ہوتا ہے۔تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات آشکار ہوتی ہے کہ وہ معاشرہ کتنا مظلوم اور قابل رحم ہوتا ہے جہاں افراد امن کی بھیک مانگتے ہوں۔زندگی اور اپنے وجود کی بقاء کے لیے التجا کرتے ہوں۔پرامن زندگی ہر فرد کی آس اور امید ہوتی ہے۔اس لیے جو لوگ امن اور سلامتی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں خوشیاں ان کا تعاقب کرتی ہیں۔تاہم اس پر فتن عہد میں پرامن زندگی کا خواب محنت٬خلوص اور پرسکون رہنے سے پورا ہوتا ہے۔بقول شاعر:-
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا(اقبالؒ)
تنقید براۓ تنقید سے تو معاشرتی امن کا خواب چکنا چور ہوتا ہے۔زبان کی آفتوں سے بھی تو امن کا خواب نامکمل رہ جاتا ہے۔امن تو ترقی اور تعمیر کے لیے ایک خوشگوار فضا کا پیام ہوتا ہے۔دوسروں کے لیے دل میں درد رکھنا٬خوشیوں کا سامان اور دلجوٸی کے لیے خوشگوار کلمات کہنا کس قدر حسین و جمیل عمل ہے۔وہ لوگ سماج دشمن قرار پاتے ہیں جو دوسروں کی فلاح کی تمنا دل کے دریچوں میں نہیں رکھتے۔زندگی تو وہی خوشگوار ہوتی ہے جس میں الفت اور محبت کے رنگ نمایاں ہوں۔دل کے دریچوں میں محبت کے شگوفے کھل اٹھنے سے زندگی کا انداز بدل جاتا ہے۔انسانیت سے پیار اور اخلاص و محبت سے پیش آنا کس قدر حسین عمل ہے؟شاید ہم اس بات سے بے خبرہیں کہ دوسروں کی خوشیوں کو ترجیح دینا کتنا افضل عمل ہے۔ایک مثالی معاشرے میں تو اپنی خواہشات قربان کی جاتی ہیں۔آج دنیا میں ہر طرف ایک اضطراب اور بے چینی پائی جاتی ہے۔اس کا بنیادی سبب سچ کا فقدان اور جھوٹ کا عام ہونا ہے۔بقول شاعر:-
سچ کے الفاظ ہی زبان میں رکھ
میری اس بات کو تو دھیان میں رکھ
ماہرین تو کہتے ہیں کہ زندگی کا روپ اسی وقت خوبصورت بنتا ہے جب صداقت کے چراغ روشن٬محبتوں کے گلاب تازہ٬اور الفت کے سمن زاروں کی ہریالی عام ہو۔جب نفرت کے چراغ روشن اور تعصبات کی ہواٸیں غالب ہوں امن کا خواب کیوں کر پورا ہو سکتا ہے۔زندگی پرامن تبھی ہو پاتی ہے جب سماج میں احساس زندہ ہو۔بے لوث خدمت کا جذبہ جواں ہو۔ایک اہم بات جس کی عصر حاضر میں زیادہ ضرورت ہے وہ معاشرتی مساوات اور حسن سلوک ہے۔بقول شاعر:-
کب نکلے گا خورشید مساوات جہاں میں
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ(انور مسعود)
آج سماج میں خودغرضی کا طلسم اس قدر غالب ہے کہ دوسروں کی کوئی خبر ہی نہیں ہوتی۔وہ لوگ کس قدر حسین و جمیل ہوتے ہیں جو قلب کے آٸینوں میں محبت کی شفافیت رکھتے ہیں۔یہ بات مدنظر رہنی چاہیے۔بقول شاعر:-
محفل میں سب تو تھے مگر اپنا کوئی نہ تھا
احساس کے چراغ اجالوں میں کھو گئے۔(ڈاکٹر عادل حیات)
Leave a Reply