Today ePaper
Rahbar e Kisan International

پردہ میں رہنے دو

Articles , / Tuesday, January 21st, 2025

مراد علی شاہدؔ دوحہ قطر
اکبر الہ آبادی کیا دور اندیش شخص تھا کہ جس نے آج سے صدی قبل، گل اندام کی خم کاکل اور موئے آتش دیدہ سے سرکتے پردے کو دیکھ کر کچھ یوں سخنوری کی کہ
کل جو بے پردہ نظر آئیں چند بیبیاں
اکبر غیرت ِ قومی سے مرگیا
وہ اور دور تھا کہ اکبر غیرت قومی سے مرگیا،ہوتا عصر حاضرمیں، تو دیکھتا کہ کس طرح قومی حمیت وغیرت کا مظاہرہ کرپاتا۔کہ اب نہ قوم ہے نہ۔۔۔ہم نے سوچا کہ اکبر جیسا باریش،درویش صفت شاعر یہ”حرکت“ کرسکتا ہے تو من آنم مسمی مرادآبادی یہ تاب سخن کیوں نہیں؟ہر چند کہ یونیورسٹی کلاس فیلوحسیناؤں کو بے پردہ کچھ ایسی بھی بے پردگی نہیں تھی بس دوپٹہ مانند حلقہ بگوش گریبان دیکھا توجوش ِتبلیغ میں اکبر کا مذکور شعر داغ دیا، جواب آں غزل (اونچی ایڑی والی)سے چودہ طبق روشن ہو گئے۔شائد اسی موقع کے لئے کہا گیا تھا کہ
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
بس پھر کیا تھا یوں محسوس ہوا کہ کسی اندھے کنویں سے آواز سنائی دے رہی ہو کہ قومی حمیت کا جنازہ تو قوم سات دہائیوں سے نکال چکی تم کس غیرت کی بات کرتے،گویا دل جلانے کی بات کرتے ہو۔شکر ہے اکبر چند بے پردہ بیبیاں دیکھ کر ہی مرگیا تھا کہ اس میں قومی غیرت زندہ تھی آج کے دور میں ہوتا تو چند پردہ پوش دیکھ کر خفتگانِ خاک ہو چکا ہو جاتا۔کہ اب پردہ تاریخ کے دبیزاوراق کے نیچے کہیں دم دے چکا ہے۔
پچھلے دنوں نئے گھر میں شفٹ ہوئے تو ماسوا پردوں کے سب سامان شفٹ ہوگیا۔بیگم کا حکم ِ حاکم تھا کہ نئے گھر میں نئے پردے آویزاں کئے جائیں گے۔تابعدار شوہر کا فرض بجا لاتے ہوئے ہاں میں ہاں ملا دی۔شومئی قسمت کہ پردوں کا رنگ کسی طور فرنیچر سے مطابقت نہ رکھنے پر پورے گھر کا فرنیچر تبدیل کرنا پڑا،مجال ہے جو ہمت ہو کہ بیگم پردوں کا رنگ تبدیل کر لو۔اسے کہتے ہیں انڈر سٹینڈنگ۔ان حضرات سے میری التماس ہے جو مستقبل قریب میں گھر بدلنے کا ارادہ رکھتے ہوں کہ گھر اور فرنیچر سے قبل پردوں کا رنگ ضرور منتخب کر لیں تاکہ بیگم کے ہاتھوں محفوظ رہ سکیں۔وگرنہ ہمت ہو تو پردے،جرات ہو تو بیگم تبدیل کر لیں۔میرا عاجزانہ مشورہ ہے کہ بیگم امیر ہو تو پردے،غریب ہو تو بیگم بدل لیں۔اور اگر ایسا ہو جائے تو کوٹھے چڑھ کے نعرے لگائیں کہ
تبدیلی آ نہیں رہی آچکی ہے۔
میرے ملک الباکستان کی سینئر سیاستدان سے جو کہ لندن کے دورہ پر تھیں کسی صحافی نے سوال داغ دیا کہ محترمہ آپ کا پردہ کہاں ہیں،ایک دم چونکتے ہوئے بولیں کہ کیا میں پاکستان میں ہوں؟وہ پاکستان میں ہوں تو پردہ کو باہر ہوں توپیسے کو ایسے سنبھالتی ہیں جیسے ایٹمی اثاثہ کو،گویا پردہ نہ ہوا ایٹم بم ہو گیا۔ویسے ان کی پارٹی کے لوگ یہی کہتے ہیں کہ پردہ میں ہوں تو بم اور بنا پردہ کے ایٹم بم لگتی ہے۔پردہ میں اسے دیکھتے ہوئے لگتا بھی ہے کہ اب”ایٹمی پروگرام“محفوظ ہاتھوں میں ہے،کہ جن کے”ہاتھوں“ میں وہ ہیں،وہاں سب اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔
کسی دور میں یہ گانا بہت مقبول ہوا تھا کہ پردہ میں رہنے دو پردہ نا اٹھاؤ،ہمارے دور میں من چلے اسی ایک مصرع سے کام چلا لیا کرتے تھے،اُن کی روح اور اپنا رانجھا راضی ہو جاتا۔اب کیا زمانہ آگیا ہے کہ تلقین کرنے والے اٹھا لئے جاتے ہیں۔جو ملکی حالات چل رہے ہیں کچھ پتہ نہیں کسی کو بھی کس جرم کی پاداش میں اٹھا لیا جائے،جس کی ایک مثال وہ شاعر ہے جو کہتا پھرتا ہے کہ یہ سچ بولتا ہے اسے اٹھا لو۔پھر ایک دن ایسا ہی ہوا اسے اٹھا لیا گیا۔تھوڑا عرصہ پابند سلاسل رہنے کے بعد آزادی پائی تو آزادی اظہار سمجھتے ہوئے پھر کہہ رہا ہے کہ مجھے پتہ ہے اٹھانے والے کون ہیں،لگتا ہے پھر سے اٹھا لیا جائے گا۔میری ذاتی رائے کہ اسے اس وقت تک اٹھاتا جاتا رہے گا جب تک وہ ”اٹھانے“والوں کے ساتھ نہیں مل جاتا۔کیونکہ میرے ملک میں وہی اوپر جاتا ہے جسے اوپر والا چاہے یا ”اٹھانے“والے۔وگرنہ اڑنے بھی نہ پائے تھے کہ پر کاٹ دیے۔
میرا ایک دوست اکثر کہتا رہتا کہ پاکستان واحد ملک ہے جہاں آزادی اظہار پر قدغن ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ اب ملک میں ایسی بھی آمریت نہیں کہ،لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام۔افراد کو مکمل آزادی ہے کہ انہیں ”اٹھانے“والوں کے ساتھ رہنا ہے یا اٹھا لیا جانے والوں کے ساتھ۔اٹھانے سے میری مراد ہرگز وہ نہیں جوآپ سب سمجھ رہے ہیں بلکہ اٹھانے سے مراد وہ اٹھانا ہے جو ملازم دفاتر میں اعلیٰ سکیل کے افسران کے اٹھاتے ہیں۔اٹھانے والوں کا خیال ہے کہ دنیا میں ہر چیز ”سکیل“میں ہونی چاہئے وہ میوزک ہو کہ ”اٹھانا“۔
محبوب کا نقاب یا پردہ میں نظر آنا شعرا حضرات کے لئے جان لیوا عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ہمہ وقت شعرا کی جنبشِ قلم محبوب کے حسن ونزاکت کے بیان میں زبان دریدہ رہتا ہے۔کہ کب بے پردہ نظر آئے اور محبوب کی ٹھوڑی میں پڑنے والے چاہِ زخنداں یا چاہِ ذقن اور رخسار میں پڑنے والے چاہِ غب غب میں ڈوب ڈوب مر جاؤں،مگر یہ حسرت ہمیشہ حسرتِ ناتمام ہی رہتی ہے کہ شاعر انتظار میں رہتا ہے اور ُعدو نقاب میں ہی لے اڑتا ہے کہ یا تو پاو بارہ یا پھر”پاؤں بھارا“۔پاؤں بھارا ہونے کے بعد شعرا سوچتے ہیں کہ پردہ میں ہوتی تو درپردہ ہوتی۔
مشاہدہ میں یہ بات بھی آئی ہے کہ بہت سے لوگ اس لئے بھی محبوب سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں کہ پردہ چہرہ کا نہیں آنکھوں کا ہوتا ہے۔ایک دوست کی محبوب کی آنکھ کا پردہ خراب ہوا تو آنکھوں کے ڈاکٹر کے پاس بار بار آنا جانا رہا،اب ماشا اللہ اسی ڈاکٹر کی آنکھ کا پردہ بن کر پردے کے پیچھے بیٹھ کر ڈاکٹر اور کلینک دونوں کا سنبھالے ہوئے ہے۔اس واقعہ کے بعد سے ڈاکٹر کی آنکھیں اور دوست کا ذہنی توازن خراب ہے۔اور گلی گلی شور مچاتا ہے کہ دل کے ڈاکٹر پر آنکھیں بند کر کے یقین کر لو مگر آنکھوں والے سے بچ بچا کے،کہ یہ آنکھ کا پردہ درست کرتے کرتے پردے کے پیچھے بٹھا لیتے ہیں۔
زیادہ پرانی بات نہیں یہی کوئی دو دہائیاں قبل شادی بیاہ کی تقریب میں جب شامیانے اور قناطیں لگا کرکرنے کا رواج تھا،تب ”خیمے“ ابھی مارکیٹ میں متعارف نہیں ہوئے تھے۔جائے اہتمام میں ایک پردہ مردوزن کی تفریق کے لئے لگا دیا جاتا تھا ارے ہائے یہ پردہ کیا تھا من چلوں کے لئے کسی طور بھی آئرن کرٹنIron Curtain دیوار برلن اور دیوار چین سے کم نہ ہوتا تھا۔من چلے حائل پردہ کی تقسیم کے درمیان درز یاقناط میں چھوٹے چھوٹے سوراخ سے دوربین کا مزہ لے کر جھوم جھوم جاتے تھے۔ ہر کسی کے منہ میں یہ بات ہوتی کہ
اوئے سرخ سوٹ والی کو دیکھا تھا وہ میری تھی،یہ عقدہ تو بارات کے بعد کھلتا کہ دلہن سمیت ہر لڑکی نے سرخ سوٹ ہی زیب تن کیا ہوا تھا۔اسی لئے میں کہتا ہوں کہ پردہ میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاؤ اور یہ بات میں نے اپنے ان دو دوستوں سے سیکھی جن میں سے ایک سہاگ رات پردہ اٹھاتے ہوئے بے پوش ہوا اور دوسرا اگلی صبح میک اپ دھلا منہ دیکھ کر۔
اب یہ دونوں ہر شادی بیاہ پر گنگناتے دکھائی دیتے ہیں کہ
پردہ میں رہنے دو پردہ نہ اٹھاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


2 responses to “پردہ میں رہنے دو”

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International