تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

پنجاب لوک رنگ میں شوکت علی کا مقام

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Sunday, June 25th, 2023

ہارون قریشی

1965 پاک بھارت کی جنگ پر ایک نگاہ دوڑائیں تو بے شمار ملی نغمے بنے جو ہمیشہ پاکستان کے ساتھ زندہ رہیں گے۔ ملکہ ترنم نور جہاں کا گایا ہوا ملی نغمہ “ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن”، مہدی حسن کا لاہور کے شہریوں کو خراج تحسین ” اے خطہ لاھور تیرے جاں نثاروں کو سلام” ایسےہی بےشمار ملی نغموں اور ترانوں میں ایک ترانہ جس کے سنتے ہی جسم میں سرسراہٹ دوڑ جاتی ہے۔ آج بھی یہ جنگی ترانا ہر پاکستانی کی روح گرماتا ہے. پاکستان کے مشہور پلے بیک سنگر مسعود رانا کے ساتھ ایک 21 سالہ خوش شکل نوجوان نے اپنی کھنک دار آواز میں اونچا سر لگایا “ساتھیوں مجاہدوں جاگ اٹھا ہے سارا وطن”۔ تو وطن عزیز کی فضاوں میں چھوٹے بڑے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو جاتے۔ میں اس نوجوان کا ذکر کرنے جارہا ہوں جو 3 مئی سال 1944 کو لاہور شہر کے اندرون علاقے بھاٹی گیٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے گھر والے انہیں پہلوان بنانا چاہتے تھے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ سکول کے زمانے میں ایک دن استاد کی غیرموجودگی میں اتنی خوبصورتی سے ڈیسک بجایا تو بڑے بھائی عنایت علی جو خود بھی ایک لوک گلوکار تھے۔ انہوں نے بھانپ لیا کہ آنے والے وقت میں میرا بھائی موسیقی کی دنیا میں اپنے فن کا لوہا منوا لے گا۔ بڑے بھائی کی رہنمائی میں شوکت علی نے پاکستان ہی نہیں بلکہ برصغیر پاک وہند میں ایسا نام کمایا جو بہت کم فنکاروں کے حصے میں آیا۔ جن دنوں شوکت علی نے اپنی فن موسیقی کا آغاز کیا وہ پاکستانی موسیقی کا سنہرا دور مانا جاتا تھا۔ فلمی موسیقی میں خواجہ خورشید انور، ماسڑ عبداللہ، ماسٹر منظور حسین، بابا جی اے چشتی جیسے لوگ جو اپنے فن میں منجھے ہوئے تھے۔ غزل گائیکی میں مہدی حسن، فریدہ خانم،غلام علی کے علاوہ فلمی گانے اور دوسرے نغموں اور غزلوں میں میڈیم نورجہان کے علاوہ ابھرتے ہوئے غزل گائیک پرویز مہدی نیم کلاسیکل اور فلمی گانوں میں مسعود رانا،احمد رشدی، منیر حسین، زبیدہ خانم، کلاسیکل موسیقی میں استاد امانت علی خان، استاد فتح علی خان، شام چوراسی گھرانے کے سلامت علی خان اور نزاکت علی خان، پنجابی لوک گائیکی میں طفیل نیازی عنایت حسین بھٹی، عالم لوہار جیسے بڑے گائیکوں میں ایک نئے فنکار کا اپنا علیحدہ مقام حاصل کرنا غیر معمولی بات نہیں تھی۔ زیادہ تر فنکار مشہور اساتذہ کا کلام پڑھتے تھے جن میں اقبال، مومن، داغ ، فیض کی غزل ہو یا نظم یا کوئی صوفیانہ کلام ہو، شوکت علی کی آواز کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا۔ پاکستان ٹیلیویژن کے 1974 کے موسیقی کے پروگرام نکھار جس کی میزبانی مرحوم بابا جی اشفاق احمد کرتے تھے۔ اس پروگرام میں اس دور کے تمام مقبول ترین کلاسیکل اور نیم کلاسیکل فنکاروں نے شرکت کی تھی۔ اشفاق احمد مرحوم نے اپنے خاص انداز میں شوکت علی کا تعارف یوں کروایا ” شوکت گاتا نہیں اور نہ یہ گلوکار ہے اور نہ ہی یہ گائیک ہے بلکہ شوکت تو گانے کا سادھو ہے غزل ہو گیت ہو ماہیا ہو سیف الملوک ہو یہ سادھو اپنی دھن میں الاپتا جاتا ہے۔ شوکت علی نے فیض احمد فیض کا کلام ” تیرے غم کو جاں کی تلاش تھی تیرے جاں نثار چلے گئے سنایا تو پوری محفل پر سکتہ طاری ہو گیا آج بھی اگر آپ یوٹیوب پر یہ پروگرام دیکھیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ اس دور میں بھی شوکت علی کا اپنا علیحدہ انداز تھا جو انہیں دوسرے گلوکاروں سے منفرد بناتا تھا۔ 1960 سے 1990 تک وہ پاکستانی فلموں میں اردو اور پنجابی کے گانے گاتے رہے۔ شوکت علی پر باری تعالی کا خاص کرم تھا کہ انہیں اردو اور پنجابی زبان میں دسترس حاصل تھی۔ شوکت علی فلمی گیتوں کے ساتھ غزل اور پنجابی گائیکی میں بھی اپنا مقام بنا چکے تھے۔

آئیں تھوڑا سا شوکت علی کی نجی زندگی کا جائزہ لیں۔ دو سال کی عمر میں والد کا سر سے سایہ آٹھ جانا یوں سمجھ لیں یتیمی میں آنکھ کھولی مگر چچا عاشق علی اور چچا عنایت علی نے یتیمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ بچپن سے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ اس دور میں کامیاب لوگوں کی بہت سی کہانیاں ملیں گی جنہوں نے سٹریٹ لائیٹ کے نیچے امتحانات کی تیاری کی اور کامیاب زندگی گزار رہے ہیں. آپ کو تعجب ہو گا شوکت علی نے ملکوال کی ریلوے اسٹیشن کی لائٹس کے نیچے پڑھ کر تیاری کی اور 1962 میں ہائی فرسٹ ڈویژن سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ مشہور زمانہ گورنمنٹ کالج لاہور سے سال 1964 میں انٹرمیڈیٹ کرنے کے بعد تعلیم کی جستجو جاری رکھی پنجابی زبان سے انہیں جنون کی حد تک لگاو تھا اور علوم شرقیہ (Vernacular) فائنل میں پنجابی فاضل کیا جسے اس زمانے میں پنجابی زبان کی ڈگری مانی جاتی تھی۔ گریجویشن مکمل کرنے کے بعد سال 1967 میں اردو کالج کراچی سے ماسٹر کی تیاری کی اور پرائیوٹ طور پر ماسٹر کا امتحان پاس کیا۔ انکا خیال تھا کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں اگر آپ کے پاس دنیاوی تعلیم نہیں ہے، چاہے آپ کسی بھی پیشے کو اپنائے اس میں جدت پیدا نہیں ہو سکتی۔ شوکت علی بچوں کے لیے میگزین ’بکھیرو‘ میں نظمیں بھی لکھا کرتے تھے۔ 2005 اور 2006 میں ان کے دو شعری مجموعے بھی مارکیٹ میں آئے جنہیں ایک بڑے طبقے نے بے حد پسند کیا۔ سال 1975 میں انہوں نے لاہور ٹی وی کے مشہور پروگرام “جی آیا نوں” میں نہ صرف پرفارم کیا۔ بلکہ اسے تحریر بھی کیا اور میزبانی کے فرائض بھی انجام دیے۔ وہ پاکستان کے پہلے گلوکار تھے جنہوں نے ناصرف کوئی ٹی وی پروگرام تحریر کیا بلکہ اس کی میزبانی بھی کی تھی۔ شوکت علی کے بڑے بیٹے عمران شوکت گلوکاری اور تعلیمی اعتبار سے اپنے والد کے نقش قدم پر گامزن ہیں بلکہ وہ اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتے ہیں کہ باری تعالی نے شوکت علی جیسا شفیق اور نرم دل باپ دیا جنہوں نے اپنی زندگی میں تمام بچوں کو اعلی تعلیم دلوائی ماشاءاللہ تمام بچے باپ کے بتائے ہوئے پیار اور محبت کے راستے پر عمل پیرا ہیں اور کوئی ایسا لمحہ نہیں گزرتا جو اپنے والد کو یاد نہیں کرتے۔ انکے پرانے دوست الحاج بشیر احمد، کیو پی ایم آج بھی انہیں یاد کر کے رنجیدہ ہو جاتے ہیں۔ انکا مزید کہنا تھا کہ عمومی طور پر یہ مشاہدہ کیا گیا ہے شہرت پانے کے بعد چند فنکاروں میں غرور کا عنصر شامل ہو جاتا ہے۔ شوکت علی جیسے جیسے شہرت کی بلندیاں حاصل کر رہے تھے ان کے ڈی این اے میں عاجزی اور انکساری اتنی زیادہ تھی کہ شہرت انکی عاجزی کے آگے بےبس ہوگی تھی۔ اللہ تعالی نے شوکت علی کو بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا دل میں دوسروں کا درد رکھنے کا جذبہ چاہیے ساتھی فنکار ہوں یا خاندان کے افراد بڑی خاموشی سے ان کی مالی امداد کر دیتے تھے ایسی انگنت مثالیں ہیں جو بیان نہیں کی جا سکتیں۔

1982 میں بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہونے والے ایشین گیمز کی افتتاحی تقریب ہو یا امریکہ اور برطانیہ میں میوزیکل شو، شوکت علی نے پوری دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ پاکستان میں جب بھی لوک موسیقی کا جائزہ لیا جائے گا تو شوکت علی کا نام ہمیشہ سر فہرست ہوگا انہوں نے اپنے خاص انداز سے چاہے گیت، ماہیا، پنجابی بولیاں ہوں یا ہیر وارث شاہ ہو یا سیف الملوک اپنی گائیکی سے وطن عزیز کا فخر سے سر بلند کروایا ۔ 1990 میں انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی ملا۔ جب کہ انہیں مختلف ادوار میں ‘پرائیڈ آف پنجاب’ اور ‘وائس آف پنجاب’ کے القابات سے بھی نوازا گیا۔ مگر شوکت کو اصلی شہرت میاں محمد بخش کے کلام سیف الملوک سے حاصل ہوئی۔ شوکت علی کو میاں محمد سے روحانی لگاؤ تھا۔ انہوں نے بہت عرصہ اپنی زندگی کے کئی سال کھڑی شریف میں میاں صاحب کے مزار پر گذارے جہاں سے انہیں ایسا فیض ملا جو بہت کم فنکاروں کے حصے میں آیا۔ میاں صاحب کے کلام کو اپنے وقت کے بہت سے نامور فنکاروں نے گایا جس میں خاص طور پر عنایت حسین بھٹی اور پنجابی فوک کے لیجنڈ طفیل نیازی شامل تھے۔ جب 1970 کے اوائل میں شوکت علی نے سیف الملوک کو راگ پہاڑی میں ترتیب کر کے ریڈو میں پڑھا ” دشمن مرے تے خوشی نا کریے سجناں وی مر جانا” تو سننے والوں پر ایسا سحر طاری ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں ایسی شہرت پائی جس کی مثال نہیں ملتی، یوں کہ لیں شوکت علی اور سیف الملوک لازم ملزوم ہوگئے۔ فیص احمد فیض کی مشہور نظم ” مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نا مانگ” ملکہ ترنم نور جہاں نے اتنے کلاسیکل انداز سے گایا اور اتنی مشہور ہوئی نور جہاں کی کی تعریف کے لیے فیض احمد فیض کے تاریخی الفاظ ہی کافی ہیں ۔ بھئی نظم “مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ” تو ہم نے نور جہاں کو دے دی ہے‘ وہ اب ہماری نہیں ہے۔ اگر شوکت علی کے دور میں میاں محمد بخش زندہ ہوتے تو شاید وہ بھی فیض کی طرح یہ ہی کہتے کہ سیف الملوک اب میری نہیں رہی، اب یہ شوکت علی کی ہو گئ ہے۔ 2 اپریل 2021 کو 77 برس کی عمر سیف الملوک پڑھنے والے سیف الملوک کے لکھنے والے کے پاس اس جہان فانی سے اگلے جہان کوچ کر گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آیا۔
12 جون 2023


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International