rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
خواہشیں ،خواب اور پھر ان خواہشوں اور خوابوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عذاب؟؟؟ ؟
اور اگر ہم ان سزاوں، کٹھنایوں ،مشکلات اور عذابوں کی ایک ادنیٰ سی جھلک کبھی دیکھ لیتے تو شاید ہم اتنے بڑے بڑے خوابوں کو اپنی پلکوں تلے سجانے کی حماقت ہی نہ کرتے مگر کیا کریں انسان ہیں اور انسان بیک وقت کمزور بھی ہے اور طاقتور بھی، بیک وقت تنہائی کے میلے میں یک و تنہا بھی ہےاور ہجوم میں ایک لیڈر بھی، توانسان کی گرگٹ کی طرح شکلیں بدلتی ہوئی یہ فطرت ہی اسےزندہ رہنے کا جواز فراہم کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی، ہم انسان بھی نہ بڑے ہی عجیب و غریب قسم کے جانور ہیں ڈرنے پہ آءیں تو مکھی سے ڈر جائیں اور بہادری پہ آ جایں تو شیر کو دم دبا کے بھاگنے پہ. مجبور کر دیں، خیر انسانی مزاج میں پای جانے والی یہی لچک انسانیت کی معراج ہے، اسی لچک کے کرشمے ہیں کہ آج ہم جنگل کے دور سے انتہائی ماڈرن اور جدید دور میں داخل ہو چکے ہیں، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے سے لے کر ذرائع آمدورفت کے ماڈرن بلکہ انتہائی ماڈرن ہوائی اور بحری جہاز اس بات کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں کہ اللہ پاک نے واقعی ہی انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر کاینات کی حکمرانی کے لیے بھیجا، کہاں لوگ پیدل چلتے تھے اور اب گاڑیاں اور ہوای جہاز انتہائی قلیل مدت میں ہمیں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچا دیتے ہیں. اور تو انسان دشمن طاقتیں تو انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے گھر بیٹھے ہی ڈرون کے بے دریغ استعمال سے بھی نہیں چوکتیں، کہاں لوگ ٹی بی، شوگر اور کینسر سے مر جاتے تھے اور اب ایڈز کا علاج بھی ایجاد ہو چکا ہے. کہاں ایک صدی پہلے فلو نے انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا اور آج کا انسان کرونا کو بھی شکست دے چکا ہے، اب اس فتح اور شکست کی کہانی میں انسان نے کیا کھویا اور کیا پایا یہ ایک علیحدہ داستان ہے،
مت میری ریختگی کے قصے سن
تو میرا جشن کامیابی دیکھ
اور عقل کی بات یہی ہے کہ انسان اپنی ناکامیوں کا سوگ منانے کی بجائے اپنی کامیابیوں پہ صبر کرے، ان تمام دنیاوی پھندوں کے ساتھ ساتھ مرد اور عورت کے رہنے سہنے اور جیون بتانے میں جو بھید بھاو اور متفرقات ہیں ان کی نبض پہ جس نے ہاتھ رکھ لیا وہ فلاح پا گیا اور جس نے اس بھید بھاو سے سر ٹکرایا، بغاوت کی وہ فنا ہی نہ ہوا پوری دنیا کے لیے نشانہ عبرت بھی بن گیا. ہم تمام انسانوں کو زندہ رہنے کے لیے مختلف قسم کے سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے یہ سہارے جذباتی بھی ہوتے ہیں اور جسمانی بھی، ماں کے بطن سے جنم لے کر ماں کا دودھ پی کر ماں کی آغوش میں پناہ لے کر پروان چڑھنے والے ہی فاتح عالم تھے، سائینسدان تھے، سرجن تھے، معلم تھے، بادشاہ تھے اور ان میں ہیبعہ بد بخت بھی تھے جو ایک ایک لقمے کی بھیک اپنے ہی شکل و صورت کے لوگوں سے مانگتے پھرتے تھے، ایک گھر تھا جہاں ماں گھر داری کرتی تھی اور باپ روزی روٹی کماتا تھا سب بچے ماں باپ کے فرمانبردار تھے اور کاروان حیات ایسے ہی کامیابی سے چلتا تھا پھر وقت نے انگڑائی لی ماں بھی کام کرنے لگی اور بچے نوکروں یا گھر کے بڑوں کے رحم و کرم پہ آ گیے بڑا نقصان ہوا، خاندانی شیرازے بکھرنے لگے، بچوں کی تربیت میں کمی آنے لگی دو پیسے کمانے کی سزا نسلوں کی اخلاقی گراوٹ کی شکل میں ادا کرنی پڑی، پھر عورت کو ماڈلنگ اور اداکاری کے نام پہ شو پیس بنا دیا گیا عام گلی محلوں میں رہنے والی لڑکیاں بالیاں اس وبا کی لپیٹ میں زیادہ آیں اور شہرت اور خود انحصاری کی وبا ان کی رگ و پے میں یوں سرایت کر گءی کہ انھوں نے اپنوں کے لاکھ سمجھانے پہ بھی اپنوں سے منہ موڑ کے پراے دیسوں کی چکا چوند میں اپنے آپ کو مکمّل طور پر گھسیڑ لیا، ارے عورت کی تو میت کو بھی زمین میں زیادہ گہرا گڑھا کھود کے دفن کیا جاتا ہے کہ اس کی میت کی کوی شکی القلب بے حرمتی نہ کر دے تو یہ جوخواتین، لڑکیاں آزادی کے نام پہ اپنے پیاروں اپنے گھروں سے کنارہ کشی کر کے میرا جسم میری مرضی کے جتھے کی بھیڑیں بننے کی کوششوں میں مصروف کار ہیں انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ زمانہ بھلے جتنا بھی ماڈرن ہو چکا ہے، اکیلی رہنے والی عورت بھلے وہ جس بھی عمر کی ہو، معاشرے میں جا بجا پھیلے ہوے خونخوار کتوں اور بھیڑیوں کے لیے سر عام پڑا ہوا گوشت ہی ہے. تمام خواتین کے نام یہی پیغام ہے کہ اپنی چار دیواری کا تقدس پامال مت کیجیے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
punnam. naureen1@icloud.com
Leave a Reply