Today ePaper
Rahbar e Kisan International

چاچو مجھے جانے دو

Articles , Snippets , / Friday, January 24th, 2025

ننھی کنیز زہرا صرف چار سال کی ہی تو تھی. چھوٹے چھوٹے ہاتھ، چھوٹے چھوٹے پاوں، چھوٹے چھوٹے پیروں سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہوی زہرا، گھر بھر میں کسی ننھی سی گڑیا کی مانند ادھر سے ادھر پولے پولے قدموں سے چلتی پھرتی سچ میں کسی پریوں کے دیس سے آی ہوی چھوٹی سی شہزادی ہی معلوم پڑتی تھی.وہ اپنی توتلی بھاشا میں چھوٹے چھوٹے جملے بولتی سب کو ہی بہت پیاری لگتی تھی داو جی سے اردو، انگریزی کا قاعدہ اور دادو جی سے نورانی قاعدے کا درس لیتی ہوی کنیز زہرا کو زندگی خوشیوں کا کوی میلہ ہی لگتی تھی صبح صبح امی جی کے ہاتھوں کی بنی ہوی دیسی گھی کی چوری، زہرا کو بہت پسند تھی وہ ماں کے ساتھ لڈو کھیلتے ہوے بھی علی الصبح ناشتے میں ملنے والی دیسی گھی کی چوری کے ہی خواب دیکھتی تھی. ہاے یہ خواب بھی انسان کو کس کس نگر کی سیر کرا دیتے ہیں اور سچ میں یہ خواب ہی ہیں جو ہمیں آگے سے آگے بڑھنے کا حوصلہ اور سہارا دیتے ہیں.
دنیا ایک خوبصورت سراے تو ہے ہی مگر یہاں رہنے اور اس کی ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈیوں پہ چلنے کے لیے بڑے ہی ہنر اور ہوش مندی سے کام لینا پڑتا ہے وگرنہ تو خواب آنکھوں میں ہی فوت ہو کر دفن ہو جاتے ہیں. تو کنیز زہرا کے پیدا ہونے پہ بھی اس کے والدین نے بہت سے خواب دیکھے تھے والدہ کا ارمان تھا کہ وہ بیٹی کو بیرسٹر بناے گی اور والد کا خواب اپنی گڑیا کو ڈاکٹر بنانے کا تھا. یہ والدین بھی ناں اپنی اولاد کو اتنا پیار کرتے ہیں کہ سوچ سے باہر ہے تو چار سالہ کنیز زہرا گھر بھر ہی کی لاڈلی نہ تھی ہمسایوں، رشتہ داروں کی آنکھوں کا بھی تارا تھی، ستاروں جیسی روشن آنکھوں والی کنیز زہرا سب کو ہی کسی الف لیلوی داستان کا کردار لگتی تھی سب کی خواہش ہوتی کہ اس کے ساتھ کھیلا جاے، اس کے لاڈ اٹھائے جایں، ابھی دس جنوری کو اس کی سالگِرہ تھی تقریباً سارے ہی چاچو، ماموں، خالائیں اور پھوپھیوں نے کنیز زہرا کو خوبصورت تحائف سے مالا مال ہی کر دیا تھا، رنگ برنگی فینسی فراکیں، ہر سایز کی گڑیایں، سکول بیگ، کاپیاں، ڈراینگ والی کاپیاں، کہانیوں والی کتابیں، غرض ننھی کنیز زہرا پھولے نہیں سماتی تھی کہ اسے اس کی سالگِرہ پہ اتنے خوبصورت تحائف سے نوازا جا چکا تھا اور پھر بھورے بالوں والی گڑیا کو تو کنیز زہرا رات کو اپنے ساتھ ہی سلاتی تھی، اس سے باتیں کرتی تھی، اسے کہانیاں سناتی تھی، اور تو اور روزانہ اپنی مے کپ کٹ لے کر گڑیا کا مے کپ بھی کرتی تھی زندگی ایسے ہی اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور محبتوں کے جھولے میں ہولے ہولے گزر رہی تھی کہ ایک سیاہ دن کچھ بھولے بھالے، اللہ توکل اور معصوم لوگوں کی زندگی میں آہی گیا. وہ کہتے ہیں ناں کہ
کتنا شام سے ڈرتے تھے
جیون نام سے ڈرتے تھے، ہم شیدائی میلوں کے
ہر کہرام سے ڈرتے تھے
اس جہان الفت کے
صبح و شام سے ڈرتے تھے
تو سمجھتے سب ایسا ہی ہیں کہ دنیا جہان الفت ہے مگر سب سے بری خصلت آدم میں یہ پای جاتی ہے کہ لالچ کا ہمالہ اس کی فطرت میں ازل سے ہی سر بلند رہا ہے اور یہ لالچ کبھی کبھار اس سے اس طرح کے گناہ بھی سر زد کروا جاتا ہے جن کے بارے میں عالم امن و سکون میں کسی نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا. تو انسان کے اندر کے برے انسان کو مارنے کے لءے قانون اور ضابطے تو بنا رکھے ہیں مگر پھر انسانی جبلت پہ کبھی کبھی شیطان اس طرح سے حاوی ہو جاتا ہے کہ اسے نہ دکھای دیتا ہے، نہ سنای دیتا ہے اور وہ شیطانی بہکاوے میں اس طرح سے الجھ جاتا ہے کہ پھر اپنے آپ کو اس شیطانی چکر سے نکال نہیں پاتا. اور ہمارے آپ جیسے بے ضرر، اپنے کام سے کام رکھنے والے بیبے لوگ بھی اس شیطانی ٹولے کے شیطانی چکر میں آ جاتے ہیں ایسا ہی کچھ چار سالہ معصوم، ننھی منھی، بھولی بھالی کنیز زہرا کے ساتھ بھی ہوا وہ جو اپنی چوتھی سالگرہ منانے کے بعد ہنسی خوشی سکول جانے کے لیے تیار بیٹھی تھی سالگرہ میں ملنے والا ڈورے مون کا بستہ، میوزک بجاتا ہوا جیومیٹری باکس، دو پونیاں چہرے پہ سجاے ننھی کنیز زہرہ بڑی بے صبری سے ابا کے انتظار میں بار بار دروازے تک جاتی اور وآپس لوٹ آتی کیونکہ ماں نے سختی سے تنبیہ کر رکھی تھی کہ دروازے سے باہر قدم نہیں نکالنا، بس ایک لمحے ہی کی خطا ہوی تھی، کنیز زہرا کا چھوٹا بھای رویا تو ماں اسے دودھ دینے اندر چلی گئی، ننھی کنیز زہرا جو
سکول جانے کے لیے اتاولی ہو جا رہی تھی نے باپ کی تلاش میں دروازے سے باہر قدم رکھ اور جونہی کنیز زہرا نے گھر سے قدم باہر رکھے اس کے اور اس کے گھر والوں کے ستارے ہمیشہ کے لیے ڈوب گیے، گلی میں ایک ذہنی مریض راشد نوید گھات لگاے کنیز زہرا کا ہی منتظر تھا اس نے فوراً کنیز زہرا کو روک کے کہا بیٹیا کسے ڈھونڈ رہی ہو کنیز زہرا نے کہا بابا کو، شیطان راشد نوید نے جھٹ سے کہا مجھے تمہارے بابا ہی نے بھیجا ہے معصوم بچی اس جھوٹ کو تو نہ بھانپ پای ہاں جب اس شیطان نے بچی کی بازو کو بے رحمی سے اپنی طرف کھینچا تو پیار محبت کے لمس میں پروان چڑھی ہوی کنیز زہرا نے لجاجت سے اپنے ہمساے سے اپنی توتلی آواز میں کہا چاچا مجھے چھوڑ دو، مگر چاچے پہ شیطان اپنا حملہ کر چکا تھا، اس نے بچی کو ایک خالی مکان میں لے جا کر اپنی جنسی درندگی کا نشانہ بنایا، بچی روتی رہی، دوہاییاں دیتی رہی، تڑپتی رہی مگر شیطان اپنی جنسی درندگی کو ایک چار سالہ معصوم بچی کے جسم پہ آزماتا رہا بچی کی انتڑیاں، مثانہ، زخمی ہو کے خون کا ایک ڈھیر لگا گیے جب کنیز فاطمہ کا جسم بے جان ہو گیا تو اس زخمی جسم اور ٹوٹی ہوی ہڈیوں کو بالای منزل سے نیچے گلی میں پھینک دیا گیا، والدین اور رشتہ دار کنیز فاطمہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے اور جب انھیں کنیز فاطمہ ملی تو وہ اسے پہچان نہ پاے. رو دھو کے صبر تھوڑی آتا ہے ایسی حا دثاتی اموات تو دل کے چاروں خانوں میں مستقل پھوڑیاں ڈال لیتی ہیں.
ملک میں اس طرح بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اور زیادتیوں نے شہریوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے احکام بالا سے ہاتھ جوڑ کے درخواست ہے کہ خدارا ایسے گھناونے ظلم کے مرتکب افراد کے لئے کم از کم سر عام پھانسی کی سزا ہونی چاہیے تاکہ کوی بھی جنسی درندہ یا ذہنی مریض کسی بھی کنیز زہرا کو اپنی جنسی درندگی کا نشانہ بنانے سے پہلے اپنے خوفناک انجام سے بھی آگاہ ہو.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International