rki.news
مجھے میری آنکھوں نے نہیں زمانے کی آنکھوں نے برباد کر چھوڑا. میں ایک چھوٹے سے دیہات میں ایک مٹی سے بنے ہوے گھر میں ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوا،ہمارے گھر میں اتنی غربت تھی کہ اسے الفاظ میں بیان کرنا تقریباً ناممکن ہی ہے، کءی کءی دنوں کی بھوک اچھے خاصے انسان کو بھی درندہ بنا دیتی ہے اور ہمارے گھر کا تو فرد تھی بھوک، بھوک ،بھوک اور بھوک. کیا ہوتی ہے بھوک، خدا کی قسم انسانی تن پہ اترنے والے سب سے بڑے عذاب کا نام ہے بھوک، اسے آپ انسانوں پہ نازل ہونے والی آزمائش بھی کہہ سکتے ہیں. بھوکے پیٹ والے انسان کا نہ کوی مذہب ہوتا ہے نہ کوی ضمیر ارے اس کا تو کوی دین ایمان ہی نہیں ہوتا. نہ کوی رشتہ داری نہ کوی یاری ہاں اسی لیے تو نوع انسانی پہ اترنے والے اس مہلک عذاب سے بچنے کے لیے ساری دنیا کے انسان اپنے اپنے داءیروں میں ریتے ہوے اپنی اپنی اوقات کے اندر ریتے ہوے اس غربت نامی عفریت سے دور رہنے کی کوشش میں مصروف کار رہتے ہیں. لوگ اپنی ازلی اور نسلی غربت کو مٹانے کے لیے خواب دیکھتے ہیں، اور اگر ان خوابوں کی تعبیریں پانے میں ناکام ہو جایں تو پھر وہی خواب اپنے بچوں کی آنکھوں میں بو دیتے ہیں،
خواب.
خواب ،خواب ہوتے ہیں
آں جناب….. ہوتے ہیں
بے رخی کی رت میں تو
بے حساب ہوتے….. ہیں
دنیا جس دور میں بھی داخل ہو جاے، کوے سفید بھی ہو جایں، جنگل کا بادشاہ اگر گیدڑ بھی بن جاے، پوری دنیا کے لوگ اونچ نیچ، ذات پات اور لڑای جھگڑے کو بھول کر امن و امان سے رہنا بھی شروع کر دیں. خالی کاسے کو
یا تجھے خالی ہی لوٹا دیں.
تو دینے والے کے اپنے حساب کتاب اور حاسدین کے اپنے، بہرحال اس نفسانفسی کے مادہ پرستی کے انتہائی بھیانک دور میں جب بھائی، بھای سے اتنی دوری پہ ہے کہ موقع ملنے پہ اس کا خون چوپسنے سے بھی دریغ نہیں کرتا، لوگوں نے امیر ہونے کے کءی شارٹ کٹ ڈھونڈ رکھے ہیں جن میں چوریچکاری، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، ناپ تول میں کمی، غیر معیاری سامان خورد و نوش، اقربا پروری، رشوت خوری، غرض پوری دنیا میں جس جس انسان کا جتنا بھی بس چل سکا ہے اتنا بس چلانا اس نے اپنا پیدایشی حق سمجھ کر وصول کیا ہاں ان سارے عام لوگوں میں وہ لوگ بڑے ہی خاص اور اللہ تعالیٰ کے چنے ہوے معدودے چند لوگوں میں سے ہوتے ہیں جو تقویٰ کی ردا کو اوڑھ کے اللہ پاک کے بتاے ہوے اصولوں کے مطابق زندگی بتا دیتے ہیں نہ ان حدود سے آگے ہوتے ہیں اور نہ ہی پیچھے، دراصل یہی وہ پاک ارواح ہیں جن کے دم قدم سے دنیا کی رعنائیاں قایم ہیں اور کاروان حیات خراماں خراماں اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے.
کچھ زیادہ نہیں
ہوں گے دو چار
جن کے دم سے
زمانے میں ہو بہار
وہ لوگ اور ان کی سادگی ساری دنیا کے لوگوں کے سامنے تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح پورے ماحول کو معطر کرتے ہیں، انھیں کھانے کو دال روٹی بھی بہت ہوتی ہے یہ لوگ اس دنیا میں اللہ کے پیامبر کی حیثیت سے لوگوں کے دکھ درد بٹانے میں لگے رہتے ہیں، لوگوں کے دکھ درد دور کرنے کو ہی اپنی زندگیوں کا اہم مقصد گردانتے ہیں آج کل کے دور میں اس طرح کے نیک لوگ چراغ لے کے ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے،
میں ایک چھوٹے سے گاؤں کے ایک مٹے سے لپے ہوے گھر میں پیدا ہوا تھا اس گاوں میں غربت بہت تھی لیکن لوگوں کے دل محبت کی چاشنی میں گندھے ہوے تھے وہاں سب کی خوشیاں اور دکھ سانجھے تھے وہاں نفسا نفسی نہ تھی لوگ پیپلوں کی چھاوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے کا حال احوال پوچھتے ایک دوسرے کے زخموں پہ پھاہے رکھتے ہنسی مذاق کے دور بھی چلتے مگر ایک دوسرے کی محرومیوں پہ نمک پاشی نہ ہوتی ایک روٹی بھی دس لوگوں میں مل بانٹ کے خوشی خوشی کھا لی جاتی سادہ زمانے کے لوگوں کو برینڈ نامی سزا سے آشنای نہ ہوی تھی، سادہ ململ اور کروشیے کے کپڑے پہن کر بھی لوگ اتراتے پھرتے تھے مجھے اس نفسانفسی کے دور سے پرے اسی سادہ دور میں وآپس جانا ہے جہاں گھر بھلے مٹی کے بنے ہوے تھے لوگوں کے دل خلوص و مروت سے گندھے ہوے تھے.
چل لوٹ جاءیں اسی دور میں ہم
جہاں لوگوں کا مذہب پیار و وفا
جہاں سب لوگ تھے بس حرف دعا
لوگوں کو یاد تھا بس اپنا خدا
چل اسی دیس لوٹ جاتے ہیں
جس دیس میں تھی بس وفا اور حیا
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gmail.com
Leave a Reply