Today ePaper
Rahbar e Kisan International

کابل کا دوست ، دہلی یا اسلام آباد

Articles , Snippets , / Friday, October 17th, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
10 اکتوبر 2025 کو افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے قدم ہندوستان کی زمین کو چومتے ہی، متقی ہندوستان کی زبان ہندوستان والوں سے بھی زیادہ اچھی بولنے لگے ہیں۔ جناب لگے ہیں بغیر کسی دھن کے ہندوستان کے گن گانے، اور بھلا بیٹھے ہیں اپنے دوست پرانے۔ دوست پرانے بھلانا تو شاید پرانی عادت ہے، لیکن اپنے ملک کا پورا ماضی ہی بھلا دینا یہ سب کے لئے ضرور باعث حیرت ہے۔ طالبان کی حکومت قائم ہونے سے پہلے طالبان مخالف افغانستان کی حامد کرزئی حکومت کے دوست اور طالبان کو ہمیشہ برا کہنے والے ہندوستان کی زبان، یکدم اتنی میٹھی ہو گئی ہے کہ بقول غالب،
کتنے شیریں ہیں ترے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا
سو امیر خان متقی بھی، پرانی ساری گالیاں جو مودی وقتا فوقتا بھرے منہ سے دیا کرتے تھے خوشی خوشی ہضم کر کے لگے پرانے دوستوں کو دھمکانے۔ دوست بھی وہ جو بڑے وقت کا ہمیشہ ساتھی رہا ہے۔ اب ان کو اتنا بھی یاد نہیں رہا، کہ نیا نو دن اور پرانا سو دن ہوتا ہے، لیکن یہ بیچارے تو سو سنار کی دھن دھن پر ہی اپنا من ہار بیٹھے ہیں، اور لگے ہیں لوہار کو آنکھیں دکھانے،
جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھی دھڑکنیں
ان کو زباں ملی تو ہمیں پر برس پڑے
جن کو عنان حکومت سنبھالنے سے پہلے پوری دنیا میں کوئی نہیں سن رہا تھا۔ ان کو پاکستان کی حمایت سے نا صرف افغانستان میں قدم جمانے کا موقع ملا، بلکہ خود کو مضبوط کر کے ترقی کا دروازہ خود پر کھولنے کا بھرپور موقع بھی ملا ۔ مگر کیا کریں رقیب روسیاہ نے کب کسی کو پھلتے پھولتے دیکھنے کی تمنا دل میں رکھی ہے۔ اب کوئی متقی سے پوچھے کہ اگر مودی کو مسلمانوں سے اتنی ہی محبت ہے، تو پھر ان مسلمانوں کو جو ہندوستان کی زمین پر نسلوں سے باسی ہیں۔ اسی ہندوستان کے جس کے مودی بھی باسی ہیں، ان مسلمانوں پر ہندوستان میں زندگی اتنی دشوار کیوں کی جا رہی ہے؟۔ متقی میں تو اتنی بھی ہمت نہ تھی، کہ اگر خواتین صحافیوں کو پہلی کانفرنس میں نہیں بلایا تھا، تو سو جوتے کھانے کے مترادف اسی سرزمین پر اپنے سامنے ہی نامحرموں کو بٹھا کر ناصرف پریس کانفرنس کرنی پڑی، بلکہ پچھلی کانفرنس میں خواتین کی غیر موجودگی پر توجیہات بھی پیش کرنی پڑیں۔ جس سے سوائے متقی کے کوئی بھی مطمئن نظر نہیں آیا۔ ہندوستان کی دھوکے کی محبت سے متقی اتنے متاثر ہوئے ہیں، کہ اپنے ملک کو پیغام محبت کے جواب میں پرانے دوستوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی بھی استدعا سے گریز نہیں کیا۔ نادان دوست شاید یہ بھول گئے تھے کہ کچھ ماہ پہلے ہی مودی کو زخم چاٹنے پر مجبور کر دیا گیا تھا، خود کو بھی زخم دینے کی تیاری باندھ کر ہلکی ہلکی جھڑپیں کر بیٹھے۔ جس کا جواب ملتے ہی ان کو سمجھ آیا، کہ جناب جن سے ہنر سیکھا جاتا ہے، اس ہنر کو انہی پر آزمایا نہیں جاتا، کیونکہ استاد آخر استاد ہی ہوتا ہے۔ خیر قطر سے سیز فائر کا مطالبہ کر کے افغان حکومت نے جان بخشی کا راستہ تو نکالا ہے، کیونکہ براہ راست سیز فائر کا مطالبہ نہ مانتے ہوئے، پاکستان نے قندھار اور کابل تک میں ان ٹھکانوں کو تباہ کر دیا تھا، جو وہاں موجود رہ کر پاکستان کی زمین پر ہنگامے کرنے میں مصروف نظر آتے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہمیشہ ہمسائے سے بنا کر رکھنی چاہئیے، کیونکہ برے وقت میں ہمسائے ہی کام آتے ہیں۔ جس کا تجربہ افغانستان کو پچھلے پچاس سال کہ تاریخ سے بخوبی ہے۔ جب پہلے سویت حملے کے بعد یہ پاک سر زمین ہی تھی جس نے اپنی بانہیں پھیلا کر اتنے پناہ گزین آباد کئے جس کی مثال نہیں ملتی، اور صرف آباد نہیں کئے بلکہ اس سر زمین پر پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے کے بھرپور مواقع بھی فراہم کئے۔ پورے پاکستان میں آزادانہ پھرنے کی آزادی دی، اور کم از کم تین نسلوں کو اس سر زمین پر با عزت روزگار کمانے کے مواقع فراہم کئے۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان مجاہدین کی حمایت کر رہا تھا، اور متقی کے نئے دوست نجیب حکومت کے دوست بنے مجاہدین سے کوئی رابطہ رکھنے کو تیار نہیں تھے۔ سویت کے جانے کے بعد بھی پاکستان ہمیشہ مجاہدین کیساتھ کھڑا نظر آیا، اور ہندوستان ان حکومتوں کیساتھ نظر آیا جن کو یہی مجاہدین غاصبانہ قابض کہتے رہے  اور جن کے خلاف جدوجہد کے بعد حکومت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ طالبان حکومت کو دہشت گرد حکومت ہونے کا طعنہ دینے والی مودی سرکار نے اپنے تازہ زخم چاٹتے ہوئے، پاکستان کی مغربی سرحد پر دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش صرف اس نظریے پر کی ہے کہ پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کی جائیں۔ بصورت دیگر طالبان حکومت کی پالیسیوں سے مودی جی کو 1 فیصد بھی پیار نہیں ہے۔ کاش امیر خان متقی ہندوستان کی سرزمین پر کھڑے ہو کر گاؤ رکھشک کے نام پر مرنے والے مسلمانوں کی حمایت میں ایک لفظ ہی بول دیتے۔ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر پر آخر بت شکن کیسے بت فروش بن کر چپ رہے؟ افغانستان کو بھی یہ یاد رکھنا چاہیے، کہ پاکستان سے دوستی افغانستان اور پاکستان دونوں کے مفاد میں ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں جنم سے ملی ہوئی ہیں، جو کبھی الگ نہیں ہو سکتیں، اور نہ ہی ترقی کا مفاد الگ ہو سکتا ہے۔ یہ دونوں ملکوں کے عوام کی خوشحالی کی سرحد ہے۔ جس سے تجارت کے راستے پوری دنیا کے لئے کھل جاتے ہیں، وگرنہ افغانستان کی ہندوستان سے تجارت کے لئے بھی پاکستان سے قائم راستے پر ہی بھروسہ ممکن ہے جو ناراضگی پر بند ہو سکتا ہے۔ ہندوستان کبھی افغانستان کا دوست ملک نہیں رہا ہے، اور مختلف مواقع پر ہمیشہ اغیار کی فہرست میں ہی نظر آیا ہے۔ یہ قول داناؤں کا ہے، کہ غیر کی باتوں میں آ کر کبھی دوستوں سے بگاڑتے نہیں ہیں، کیونکہ دوستوں سے الگ ہو کر غیر آپ کو اپنا شکار آسانی سے بنا سکتے ہیں۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
جاگئے کہیں دیر نہ ہو جائے اور دوستوں سے دوری کا نقصان نسلوں کو برداشت کرنا پڑے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International