rki.news
ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
تاریخ گواہ ہے کہ زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ خصوصاً پنجاب، جو زرعی پیداوار میں ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے، ہمیشہ کسانوں کی پالیسیوں کا مرکز رہا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے کسانوں کو مسلسل استحصال، حکومتی بے حسی اور مارکیٹ کی غیر منصفانہ پالیسیوں کا سامنا رہا۔ حالیہ دنوں میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، وہ یقیناً ایک تاریخی تناظر میں نئے باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پاکستان میں زراعت کی سرکاری سرپرستی کا آغاز 1950 کی دہائی میں ہوا۔ اسی دوران 1957 کا فوڈ گرینز لائسنسنگ کنٹرول آرڈیننس نافذ کیا گیا تاکہ گندم، چاول اور دیگر اجناس کے ذخیرہ اندوزوں کو قانون کے دائرے میں لایا جا سکے۔ ایک اور اہم ستون کم از کم امدادی قیمت (MSP) تھا جس کے تحت حکومت کسانوں سے مقررہ قیمت پر گندم خرید کر ان کی معاشی ضمانت فراہم کرتی تھی۔ لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے حالیہ معاہدوں کی روشنی میں MSP جیسی سہولت ختم کر دی گئی ہے جس نے کسانوں کو کھلے بازار کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیا۔
وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کی زیر صدارت پنجاب کابینہ کے 25ویں اجلاس میں کاشتکاروں کے لیے جو فیصلے کیے گئے، وہ نہ صرف موجودہ بحران کو مدنظر رکھتے ہیں بلکہ ایک پائیدار زرعی پالیسی کی بنیاد بھی رکھ سکتے ہیں۔ ان اقدامات میں فلور ملوں کو 25 فیصد گندم کی خریداری لازمی قرار دینا بھی شامل ہے، یہ فیصلہ کسانوں کے لیے براہ راست خریدار کی دستیابی یقینی بنانے کی ایک کوشش ہے۔ اگر کوئی فلور مل اس قانون کی خلاف ورزی کرے گی تو اس کا لائسنس منسوخ کر دیا جائے گا، جو کہ ایک اچھا اقدام ہے۔ 1957 کے فوڈ گرینز لائسنسنگ آرڈیننس میں ترمیم کی جائے گی، یہ ترمیم نجی شعبے کے کردار کو قانونی دائرے میں لانے اور ذخیرہ اندوزی پر کنٹرول کی راہ ہموار کرے گی۔ الیکٹرانک وئیر ہاؤس رسید (EWR) سسٹم کا نفاذ کیا جائے گا، یہ نظام کسانوں کو اپنی گندم محفوظ کرنے، بطور ضمانت بینک قرضے حاصل کرنے، اور مناسب وقت پر فروخت کرنے کی آزادی فراہم کرے گا۔ گندم کی اسٹوریج پر اخراجات حکومت برداشت کرے گی، یہ ایک بڑا قدم ہے جس سے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کو براہ راست فائدہ ہوگا۔ گندم اور آٹے کی بین الصوبائی فروخت پر سے پابندی کا خاتمہ کیا جائے گا، اس سے کسانوں کو بڑی منڈیوں تک رسائی حاصل ہوگی اور انہیں بہتر قیمتیں مل سکیں گی۔ کسان کارڈ ہولڈروں کے لیے 15 ارب روپے کا سپورٹ فنڈ مقرر کیا جائے گا، یہ فنڈ فی الوقت بحران کا ہنگامی حل تو فراہم کر سکتا ہے، لیکن ماہرین کے مطابق یہ پائیدار حل نہیں۔آبیانے اور فکسڈ ٹیکسز سے استثنیٰ بھی شامل ہے، یہ کسانوں پر مالی دباؤ کو کم کرے گا۔
کسانوں کے مطابق موجودہ مارکیٹ میں 40 کلو گرام گندم کی قیمت صرف 1800 سے 2200 روپے ہے، جبکہ پیداواری لاگت 3000 روپے سے زائد ہے۔ اس خسارے کے باعث کسان احتجاج پر مجبور ہیں۔ اگرچہ وزیراعلیٰ کی طرف سے دی گئی سبسڈی اور پالیسی اصلاحات ایک مثبت قدم ہیں لیکن MSP کی عدم موجودگی بنیادی مسئلے کو حل نہیں کرتی۔ ماہرین کی رائے میں EWR اور ویٹ سیکٹر کی ڈی ریگولیشن جیسے اقدامات وقتی سہولت تو ہیں، مگر طویل المدت پالیسی فریم ورک کے بغیر زرعی معیشت مستحکم نہیں ہو سکتی۔
اسی اجلاس میں وزیراعلیٰ نے 15 لاکھ مزدوروں کے لیے راشن کارڈ متعارف کرانے کا فیصلہ بھی کیا۔ یہ ایک جامع سوشل پروٹیکشن اسکیم کا حصہ ہے جو معاشرتی فلاح کا عکاس ہے۔ اس کے ساتھ درجنوں ایسے فیصلے کیے گئے جو عام آدمی کو ریلیف دینے کے لیے ہیں۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی قیادت میں پنجاب حکومت نے بلاشبہ کچھ اہم اقدامات کیے ہیں جو کسانوں کے مسائل کا وقتی حل پیش کرتے ہیں۔ الیکٹرانک وئیر ہاؤس سسٹم، گندم خریداری کی لازمی شرط اور اسٹوریج پر سبسڈی جیسے اقدامات اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ حکومت زرعی بحران کے اثرات کو سمجھتی ہے۔ تاہم جب تک MSP جیسا بنیادی تحفظ بحال نہیں کیا جاتا اور کسانوں کے زرعی مداخل پر مہنگائی قابو میں نہیں آتی، اُس وقت تک کوئی بھی پالیسی مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکتی۔
اس سلسلے میں چند سفارشات یہ ہیں۔ MSP کی بحالی کے لیے وفاقی سطح پر دوبارہ مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ کسانوں کو براہ راست مارکیٹ تک رسائی کے لیے زرعی مارکیٹنگ اتھارٹی قائم کی جائے۔ زرعی مداخل (بیج، کھاد، ڈیزل) پر سبسڈی بحال کی جائے۔ چھوٹے کسانوں کے لیے بلا سود قرضے EWR کے ذریعے جاری کیے جائیں۔ اگر یہ اقدامات مستقل مزاجی سے جاری رہے تو پنجاب ایک مرتبہ پھر زرعی خوشحالی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
Leave a Reply