rki.news
تحریر: سلیم خان
ہیوسٹن، (ٹیکساس) امریکا
اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو کسی نہ کسی وصف سے نوازا ہے۔ کوئی علم میں ممتاز ہے، تو کوئی مال میں آسودہ؛ کوئی وقت دے سکتا ہے تو کوئی مشورہ، اور کوئی دعاؤں میں شامل کر سکتا ہے۔ ان ہی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے: “دستِ عطا” وہ ہاتھ جو کسی گرتے کو تھام لے، کسی بھوکے کو کھانا دے، کسی ننگے کو لباس پہنائے، کسی اندھیرے کو روشنی میں بدل دے۔
چیرٹی یا خیرات، صرف پیسہ دینے کا نام نہیں۔ یہ دل کی وسعت، نیت کی پاکیزگی، اور جذبۂ ہمدردی کا مظہر ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
“جو کچھ تم خرچ کرتے ہو، اللہ اسے جانتا ہے۔” (سورۃ البقرہ: 273)۔
اسلام ہمیں محض خیرات کی ترغیب نہیں دیتا بلکہ اسے ایمان کی علامت، اخلاقی ذمہ داری اور معاشرتی نظام کا ستون قرار دیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “صدقہ غضبِ الٰہی کو بجھا دیتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔” (ترمذی)
اگر ہم اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ “دستِ عطا” ہی وہ وصف تھا جس نے معاشرے کو جوڑے رکھا، دلوں میں محبت بھری، اور طبقاتی تفریق کو کم کیا۔ حضرت ابو بکرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کرام نے اپنی زندگیاں خدمتِ خلق اور فی سبیل اللہ خرچ کرنے میں گزار دیں۔ ان کا “دستِ عطا” کسی سائل کو خالی نہ لوٹاتا، اور نہ ہی احسان جتایا جاتا۔
افسوس کہ آج ہمارے ہاں خیرات کا تصور محض سالانہ زکوٰۃ یا چند دکھاوے کے عطیات تک محدود ہو گیا ہے۔ ہم مال تو دیتے ہیں، مگر دل کے ساتھ نہیں؛ تصویر بناتے ہیں، تعریف چاہتے ہیں، اور کبھی کبھی نیت بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔ خیرات، خود نمائی نہیں، خدا نمائی ہے — یہ انسان کو اللہ کے قریب اور دنیا کے جھمیلوں سے دور کرتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ غیر مسلم اقوام میں charity (خیرات) ایک منظم، مستقل اور مقدس روایت کے طور پر قائم ہے۔ ہر بڑی کمپنی، ہر تعلیم یافتہ فرد، اور حتیٰ کہ بچے بھی فلاحی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ ان کے ہاں charity عبادت نہیں، مگر وہ عبادت کرنے والوں سے بہتر طریقے سے انسانیت کی خدمت کرتے ہیں۔ ہم جو دینِ محمدی ﷺ کے پیروکار ہیں، ہمارے “دستِ عطا” کیوں خشک ہوتے جا رہے ہیں؟
یہ عنایت جو خیرات (charity) کی صورت میں ہم دیتے ہیں یہ صرف لینے والوں کو خوشی نہیں دیتی بلکہ دینے والے کو بھی ڈھیروں خوشیاں اور سکون قلب عطا کرتی ہے۔
یہ دل کو نرم کرتی ہے، غرور کو ختم کرتی ہے، شکرگزاری پیدا کرتی ہے، اور غربت کے خلاف ایک خاموش مگر مضبوط ہتھیار ہے۔ یہ صرف دوسرے کا پیٹ نہیں بھرتی، اپنے نفس کو بھی پاک کرتی ہے۔
یاد رکھیے، “دستِ عطا” ہمیشہ اوپر ہوتا ہے، دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ ہم سب کے پاس کچھ نہ کچھ ہے جو ہم دے سکتے ہیں: مسکراہٹ، وقت، علم، ہنر، دعا، توجہ یا صرف ایک تسلی۔ جو ہاتھ کسی کی مدد کو اٹھے، وہ کبھی خالی نہیں رہتا، نہ دنیا میں، نہ آخرت میں۔
آئیے، ہم “دستِ عطا” کو پھر سے فعال بنائیں۔ دکھاوے سے نہیں، دل سے۔ فرض سمجھ کر نہیں، جذبے سے۔ تاکہ یہ دنیا صرف جینے کی جگہ نہ ہو، بلکہ ایک دوسرے کے لیے جینے کا وسیلہ بھی بن سکے۔
Leave a Reply