مصنفین / ناصر زملؔ,جواد حُزن
تبصرہ / حسن ابنِ ساقی
“کچھ روز قبل ایک نوجوان شاعر کے انٹرویو کا ایک کلپ نظر سے گزرا، جس میں وہ نوجوان شعراء سے مبتدیوں کے علمِ عروض سیکھنے کے حوالے سے بات کر رہے تھے: کہ اکثر سینئیر شعراء نے طنزیہ انداز میں انہیں کہا “واہ بھائی! تمھارے تو بڑے شاگرد ہیں”
جس کے متعلق انہوں نے کہا کہ آج ہمارے کئی نوجوان ہیں جن کے اندر شعر کہنے کی صلاحیت موجود ہے- مگر کوئی ان کی رہنمائی کرنے والا نہیں ہے، جس سے وہ شاعری کے پیچ و خم پوچھ سکیں-
اگر کوئی نوجوان شاعر جو اِن چیزوں سے واقف ہو اور وہ دوسروں کو سکھانے کا بیڑا اٹھائے تو ہمیں اس کا حوصلہ بڑھانا چاہیے نا کہ اس کو ذہنی ٹارچر کیا جائے ۔۔۔
میں نے جب یہ بات سنی تو سب سے پہلے میرے ذہن میں ناصر اور جواد کا خیال آیا، چونکہ یہ لوگ بھی ایک عرصے سے کتنے لوگوں کو علم العروض سے روشناس کر چکے ہیں، یہ خود بھی نوجوان ہیں اور ان کے شاگردوں میں کثیر تعداد میں نوجوان موجود ہیں ۔۔۔
اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ جو لوگ عروض پر مکمل مہارت رکھتے ہیں ان کے اندر سے اچھا شعر کہنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے- یہ بات کسی حد تک درست کہی جا سکتی ہے مگر میں اس بات کا شاہد ہوں کہ میں نے ان دونوں کو دیکھا کہ عروض پر مکمل مہارت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ان دونوں کے پاس اچھے اشعار کا ایک خزانہ موجود ہے، اور اس کی ایک مثال ان کی مشترکہ کتاب ” سحرِ بیان “ ہے ۔۔۔ اور اس دور میں یہ مشترکہ کاوش قابلِ قدر ہے جہاں ہر کسی کو اپنی ذات سے غرض ہے ۔۔
عام طور پر ہمارے معاشرے میں کئی لوگ صرف کچھ خاص بحروں سے ہی واقف ہیں میں نے ان کے کلام میں کئی ایسی بحروں کو دیکھا جو عموماً لوگ استعمال ہی نہیں کرتے، کیونکہ وہ ان سے بے خبر ہوتے ہیں- اور اسی بنیاد پر کچھ لوگوں نے ان پر بے وزن اشعار کہنے کا الزام لگایا، جبکہ جو الزام لگا رہے وہ ان اوزان سے نا واقف ہیں جو انہوں نے استعمال کیے ۔۔۔
کتاب کی بات کی جائے تو ادارہ “سرائے اردو” سے چھپی اس کتاب کی بیرونی ہارڈ بائنڈنگ اور کور سے لے کر اندرونی صفحات میں حصۂ ناصر زمؔل سے لے کر حصۂ جواد حزؔن تک غزلیات ، قطعات ، یا پھر نظمیں ہوں، واقعی یہ کتاب اپنے اندر ایک سِحر سمائے ہوئے ہے ۔۔۔۔
اگر پسندیدہ مواد کے حوالے سے بات کروں تو میرا یہاں وہ لکھنا محال ہے، کیونکہ اس کتاب میں ہر کلام ایک سے بڑھ کر ایک ہے ۔۔۔۔
بس دونوں کے ایک ایک شعر پر اپنی بات کو ختم کرتا ہوں اور آخر میں میرے ان دونوں محبوب دوستوں کے لیے ڈھیروں دعائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر شام میں ترکِ سخن کا پھر سے سوچتا ہوں
ہر رات ترا غم ایک غزل بنا دیتا ہے
– جواد حؔزن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود کو بے گھر پایا تو یونہی یاد آیا
غم جو دل سے نکلتے ہیں کہاں جاتے ہونگے
– ناصر زمؔل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن ابنِ ؔساقی
عرف شاعر جمالی
اسلام آباد ۔ پاکستان
تین جون دو ہزار چوبیس
Leave a Reply