Today ePaper
Rahbar e Kisan International

کھیل کو کھیل ہی رہنے دیا جائے

Articles , Snippets , / Monday, September 29th, 2025

rki.news

مراد علی شاہد دوحہ قطر

دربان سے دربار،ساربان سے سارے عوام،گلی محلوں سے کوچہ یار ہر سو ایک ہی موضوع گفتگو چل رہا ہے اور وہ ہے پاکستان کرکٹ ٹیم کی انڈیا کے ہاتھوں ایشیا کرکٹ کپ کے فائنل میں شکست۔عوامی ردعمل یا غصہ قدرتی عمل ہے کہ ہم عوام کی اپنی ٹیم کے ساتھ جذباتی وابستگی ہوتی ہے۔اگرچہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہوتی ہے تاہم کیا ہم نے ہم بار انڈیا سے ہارنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ہماری کرکٹ ٹیم بھی پاکستانی ٹھیکہ داروں کی سوچ رکھے ہوئے ہیں کہ اپنا کمشن لے کر سائیڈ کرائیں باقی پراجیکٹ جائے جہنم میں۔حسب حال پر مجھے ایک بات آگئی کہ
ایک گاؤں میں نمبردار کی بیٹی کی شادی تھی تو اس نے گاؤں کے نائی کو بلا کر ہدایات دیں کہ دیکھو ماکھیا میری بیٹی کی شادی پر امیر کبیر،پڑھا لکھا اشرافیہ طبقہ آرہا ہے لہذا کسی قسم کی چوک یا کھانے میں بدمذگی برادشت نہیں کی جائے گی۔ماکھے نے کہا کہ چوہدری جی کوئی مسئلہ ای نئیں پہلاں وی تے میں ای دیگاں پکاناں واں۔چوہدری مطمئن ہو کر دیگر کام کاج میں مصروف ہو گیا۔اب خدا کی کرنی دیکھئے کہ ماکھے سے دیگ خراب ہو گئی۔چوہدری نے ماکھے کو بلا کر خوب کلاس لی۔اب ماکھا ٹھہرا غریب آدمی،اس سے اور نہ کچھ ہو پایا تو کہنے لگا
”دیکھو چوہدری جی تہاڈے چاول گئے تے میری مزدوری“
کچھ ایسا ہی حال ہماری ٹیم نے بھی کیا کہ ہر میچ ہارنے کے بعد کیا کہ شائقین کے پیسے گئے اور ہمارا میچ۔یقین کیجئے کہ میں نے عرصہ دراز سے کرکٹ دیکھنا چھوڑ رکھا تھا وجہ مینجمنٹ میں آئے روز تبدیلیاں،غیر پیشہ ورانہ بھرتیاں اور رویے،پرچی سسٹم،گروپ بندی اور دیگر کئی مسائل۔فائنل میں نہ جانے کیوں اشتیاق سا پیدا ہو گیا کہ نہیں جیسے بھی ہیں،ہیں تو ہمارے۔حوصلہ جمع کیا اور بیٹھ گیا سکرین کے سامنے۔پہلے گیارہ اوورز تک تو اطمینان ہی رہا کہ نہیں ایسے ہی لوگ کہہ رہے ہیں کہ ٹیم کے پلے کچھ نہیں،کارکردگی زیادہ کھلاڑیوں کو صفر ہے۔ایک صد سکور تک تو اوسط رنز دیکھ کر لگا کہ نہیں دو صد رنز تک پہنچ ہی جائیں گے اور اگر ایا ہو جاتا ہے تو پھر انڈیا کے لئے بھی مشکل ہو جائے گا کہ اگر وہ جیتیں بھی تو مشکل وقت لے کر جیتیں گے۔
مگر یو نہی پہلے دو کھلاڑی آؤٹ ہو کر واپس پویلین گئے گویا باقی ماندہ نے بھی واپسی کی دوڑ لگا دی جیسے گلی میں شور کرنے والے بچوں کو محلہ کے بزرگ ڈانٹ ڈپٹ کر گھروں کو واپس بھیج دیتے ہیں۔بس پھر کیا تھا اکیلے میں ہی گنگناتا رہا کہ اب تو نہیں تو تری جستجو بھی نہیں۔اوپر سے سر منڈاتے ہی اولے پڑنے والی بات یہ ہوگئی کہ انڈین ٹیم نے پی سی بی اور ایشیا کرکٹ کونسل کے چئیرمین محسن نقوی کے ہاتھوں ٹرافی وسول کرنے سے بھی انکار کردیا۔اب یہ ایک نیا کٹا کھل جائے گا جو کسی لحاظ سے بھی کرکٹ شائقین کے لئے بہتر نہیں ہوگا۔وہ اس لئے کہ ہمیں خاص کر پاکستان اور انڈیا کو سیاسی صورت حال کو کھیل کے میدان سے دور ہی رکھنا چاہئے،برداشت اور صبر ہی کھیل کا خاصہ ہوتا ہے اور کھلاڑیوں میں اسی کا فقدان ہو گیا تو پھر گراؤنڈ بھی ہوں گے،میچ بھی ہونگے مگر شائقین سے خالی ہوں گے۔
مسئلہ کا حل یہ نہ نکالا جائے کہ اس مسئلہ کو روائت کا حصہ بنا دیا جائے کیونکہ روایات لمبے عرصہ کے لئے چلتی ہیں خاص کر ایسی روایات جس کی بنیاد نفرت و تعصب ہو،کہ ایسی روایات دم دیتے دیتے بھی اقوام کا دم نکال لیتی ہیں۔بلکہ مل بیٹھ کر،کھیل کو کھیل سمجھتے ہوئے برائی کو ابھی سے ہی دفنا دیا جائے وگرنہ ایسی برائیاں جب جڑ پکڑ لیتی ہیں تو انہیں چھتناور درخت بنتے زیادہ دیر نہیں لگتی۔
میں سب اس لئے بھی کہہ رہا ہوں کہ ہم دونوں اقوام یا ممالک کو اب روائتی حریف یا دشمنی نبھانے کی بجائے دنیا کے مقابل لا کھڑا کرنا ہوگا،اس لئے کہ مسئلہ محسن نقوی یا انڈین عہدیداران کا نہیں ہے۔یہ سب تو ایک نام ہیں،عہدہ ہیں،شخصیت ہیں اس کے سوا تو کچھ نہیں،دراصل جب حارث رؤف نے ایک مخصوص اشارہ سے انڈین عوام یا شائقین کرکٹ کے دل کو ٹھیس پہنچائی تو اس کا مطلب تھا کہ اس نے ملک انڈیا کے جنگ ہارنے کی طرف اشارہ کیا۔ردعمل کے طور پر بھارت کی ٹیم نے میدان مار کر شکست کو فتح میں بدل کر شائقین کو ایک بہتر کرکٹ دکھا کر فائنل ٹرافی اپنے نام کی تو ان کا منفی ردعمل بنتا بھی تھا،اب اگر انہوں نے محسن نقوی کے ہاتھ سے ٹرافی لینے سے انکار کیا تو اس کا بھی مطلب یہی ہے کہ انہوں نے دراصل محسن نقوی کو نہیں ملک پاکستان کی تضحیک کرنے کی کوشش کی۔اس لئے کہ محسن نقوی ایک عہدہ کا نام ہے جو مستقل رہنے والا نہیں ہوتا۔جبکہ ملک بھارت اور پاکستان کو تو قائم و دائم رہنا ہے۔لہذا عہدیداران اور کھلاڑیوں کو مستقبل قریب کو نہیں بعید کا سوچتے ہوئے میدانِ کرکٹ کو شائقین کرکٹ سے بھرنا ہے نہ کہ خالی کرنے والے کام کرنے ہیں۔تھوڑی دیر کے لئے ہی سوچ لیں کہ اگر فائنل میچ انڈیا اور پاکستان کا نہ ہوتا تو کیا سٹیڈیم تماشیوں سے بھرا ہوا ہونا تھا۔نہیں کبھی بھی نہیں یہ صرف میری رائے ہی نہیں کامل یقین ہے،کیونکہ دونوں ممالک کی عوام اپنی اپنی ٹیم کو سپورٹ کر نے کے لئے پرجوش اور ولولہ انگیز ہوتی ہے۔اب آپ ہی بتائیں کہ کیا ایسے حرکتوں پر ابھی سے قابو پا لیا جانا چاہئے یا روایات کا حصہ بننے دیا جانا چاہئے؟


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International