rki.news
عامرمُعانؔ
فلسطین کی سرزمین عرصہ دراز سے صبر ، قربانی اور مزاحمت کی علامت بنی ہوئی ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں ہر روز جنازے اٹھتے ہیں۔ ہر روز آہوں اور سسکیوں میں اپنے پیاروں کی لاشوں کو دل پر پتھر رکھ کر دفنایا جاتا ہے۔ معصوم بچوں کو بھوک اور پیاس سے بلکتے اور تڑپتے دیکھا جاتا ہے۔ بوڑھے کاندھوں پر جوان لاشے نظر آتے ہیں۔ اتنا ظلم ہونے کے باوجود کوئی ان کی آنکھوں سے بہتر مستقبل کے امید کی چمک، اور ذہنوں سے آزادی کے خواب چھین نہیں سکا ہے۔ اتنی بربریت سے نبرد آزما یہ بہادر قوم اپنے محاذ پر نہتے ڈٹے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے میں مصروف عمل ہیں۔ پورے فلسطین پر ڈھایا گیا ظلم ایک طرف، اور غزہ پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کے پہاڑ ایک طرف ہیں۔ غزہ کی بات ہی کیا کی جائے۔ غزہ میں اسرائیل نے جو ظلم کا بازار گرم کیا ہوا ہے، اس نے غزہ کے بچوں سے ان کا بچپن چھین لیا ہے ۔ ہر طرف روٹی کے ایک ایک نوالے کو ترستی عوام ہے ، پیاس سے بلکتے ہوئے بچے ہیں ، تڑپتے مریض ہیں ، اور ہر روز ظالم کے ہاتھوں مرتے شہری ہیں۔ ان شہریوں کی آنکھوں میں عالمی ضمیر کے دل پر کچوکے لگاتے آنسو ہیں۔ لب پر فریاد ہے۔ ظالم کے خلاف احتجاج ہے۔ ظلم سہنے کا حوصلہ ہے۔ زخم زخم جسم ہے، اور آہوں سے بوجھل سینہ ہے۔
اسرائیل نے غزہ کا کافی عرصے سے مکمل طور پر محاصرہ کر کے، آبادی کے لئے جاری خوراک اور ادویات کی ترسیل کا راستہ مکمل بند کر دیا ہے۔ وہ غزہ کے اصل مالکوں سے زمیں ہتھیانا چاہتا ہے۔ وہ غزہ سے مکمل آبادی کا انخلاء چاہتا ہے۔ وہاں کے اصل حاکموں کو ان کی اپنی ہی زمین سے بےدخل کرنے کے ایک ایسے منصوبے پر عمل پیرا ہے، جس کا مقصد پورے خطے پر اپنی طاقت سے قبضہ کرنا ہے ۔ اس کے نزدیک زمین انسانی خون سے زیادہ مہنگی ہے، جس کے حصول کے لئے وہ بے دریغ خون بہانے سے بھی گریز نہیں کر رہا ہے۔ عالمی دباؤ یکسر مسترد کرنے کے لئے اس کے دست و بازو بنے چند ممالک کی اسے مکمل آشیرباد حاصل ہے۔ جن کے بل بوتے پر اس نے یہ خونی کھیل علاقے میں جاری رکھا ہوا ہے۔
ان تمام حالات میں اقوام عالم کی حکومتی پالیسیوں سے نالاں، مختلف غیر سرکاری تنظیموں کا کارکناں انسانیت کے بھلائے گئے درس کو دوبارہ زندہ کرتے ہوئے، ہمیشہ اس کوشش میں لگے رہتے ہیں، کہ کسی بھی طرح ان مظلوموں تک امدادی سامان کی ترسیل ممکن بنا سکیں، لیکن ان کی ان کوششوں کے بارآور ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل ہے۔ اسرائیل ان کی کاوشوں کے درمیان ہمیشہ ایک بڑی رکاوٹ بنا رہا ہے ۔ وہ اس امداد کو ان مظلوموں تک نہیں پہنچنے دینا چاہتا، کیونکہ اس سے اس کو اپنے خطہ پر قابض ہونے کے عزائم مٹی میں ملتے نظر آتے ہیں۔ ان علاقوں میں جاری ظلم و بربریت کی مکمل تفصیلات کا حصول پابندیوں کے ذریعے اسرائیل نے ناممکن بنایا ہوا ہے، جو تھوڑی تھوڑی اطلاعات ملتی ہیں اس کے لئے بھی کافی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ ان امدادی ورکرز کی خطے میں آمد سے وہاں روا رکھا گیا ظلم بھرپور انداز میں دنیا کے سامنے آ سکتا ہے، جن کے ذریعے دنیا بہتر طور پر آگاہی حاصل کر سکتی ہے کہ غزہ میں کیسا ظلم کا بازار لگا ہوا ہے۔
کئی بار فریڈم فلوٹیلاز تیار کر کے بحری راستے کے ذریعے غزہ ، فلسطین تک امداد پہنچانے کی ان امدادی کارکنان کی کوششیں تاحال ثمر آور نہیں ہو سکی ہیں۔ اسرائیلی ہٹ دھرمی پر اترا ہوا ہے ، اور اس ہٹ دھرمی کو روکنے والی طاقتیں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر صرف مذمت کر کے خاموش ہو جاتی ہیں۔ جو اسرائیل کو روا رکھے گئے ظلم پر مزید ابھارنے کا باعث بن رہی ہیں۔
تازہ ترین اقدامات میں انسانیت کے جذبہ سے لیس 44 ممالک کے محب انسانیت، اپنی مدد آپ کے تحت ‘ گلوبل صمود فلوٹیلا ‘ کے نام سے بحری راستے کے ذریعے انسانیت کی خاطر امدادی سامان غزہ پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ صمود عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ہیں ثابت قدم رہنا، ڈٹے رہنا، شکست تسلیم کرنے سے انکار کر دینا۔ یہ نام اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ نام غزہ کے عوام کے حوصلوں کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔ بھوک ، غربت، بمباری، محاصرے کے باوجود ان کا صبر پوری دنیا کے مظلوموں کے لئے ایک مثال بن چکا ہے۔ آفرین ہے ان بچوں پر جو صبح روٹی کے بغیر صبر کا دامن پکڑ کر اپنے دن کا آغاز کرتے ہیں۔ آفرین ہے ان ماؤں پر جو اپنی بھوک چھپا کر ان بچوں کو تسلی دیتی ہیں۔ آفرین ہے ان جوانوں پر جو ان مشکل حالات سے نبردآزما ہوتے ہوئے بھی اپنی آزادی کے خواب سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ اپنی زمین چھوڑنے کو تیار نہیں، یہ سب صمود کے زندہ پیکر ہیں۔
اس ‘ گلوبل صمود فلوٹیلا ‘ پر مختلف ممالک کے انسانی حقوق کے کارکنان سوار ہیں، جو طبی امداد سے بھرے جہاز لئے غزہ کی طرف محو سفر ہیں، مگر اسرائیل نہیں چاہتا کہ یہ غزہ پہنچیں۔ اسرائیل کی دھمکیوں کے باوجود سفر جاری رکھنے پر، اسرائیل نے اس فلوٹیلا پر تیونس کی سمندری حدود میں اپنی بحری افواج کے ذریعے ڈرون حملہ کیا ہے، جو نہ صرف عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے، بلکہ غزہ کے عوام کو تنہا کرنے کی سازش کا ہی ایک حصہ ہے۔ یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ انسانیت کے نام پر نکلنے والے ان قافلوں پر حملہ کر کے، کیا خون اور بارود کی دیواریں کھڑی کرنے سے انسان کے عزم اور حوصلے کو توڑا جا سکتا ہے؟ ‘ گلوبل صمود فلوٹیلا ‘ پر موجود انسانیت کے علمبرداروں نے اس سوال کا جواب دے دیا ہے، کہ فولادی عزم کے سامنے یہ دیوار جلد ریت کے ذروں میں تبدیل ہو جائے گی۔
اقوام عالم کا ضمیر جگانے کی کوشش کرتے ہوئے اس قافلے نے اپنا سفر جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، لیکن کیا عالمی طاقتیں ان کی بھرپور مدد کرتے ہوئے ان کے اس حوصلے کو طاقت بخشنے کی کوشش کریں گی؟ کیا غزہ سے آتی مظلوموں کی صدائیں عالمی حکمرانوں کے ضمیر کو جگانے میں کامیاب ہو سکیں گی؟ کیا انسان کی زندگی کی قیمت کا احساس اقوام متحدہ کے ہال سے نکل کر باہر کی دنیا کو یہ باور کروا سکے گا کہ مظلوم تنہا نہیں ہیں۔ غزہ کے نہتے عوام کی آنکھیں اس امداد کے ان تک پہنچنے کی منتظر ہیں۔ عالمی ضمیر جاگنے کے منتظر ہیں ۔ وہ اس پیغام کے امین ہیں کہ آج کے ظالم جان لیں کہ ہر ظالم کا انجام تاریخ کے اوراق میں درج ہے، اور ان کا انجام جلد درج ہونے جا رہا ہے۔
Leave a Reply