rki.news
ملک کے اوّلین پرائم منسٹر پنڈٹ جواہر لعل نہرو کی پیدائش کی تاریخ کو
” چلڈرنس ڈے” کے طور پر پورے ملک میں منانے کی روایت 1964سے جاری ہے۔
14/نومبر کو پیدا ہونے والے ملک کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈٹ جواہر لعل نہرو کی فطرت میں بچوں سے پیار کرنے کا خمیر خدائے لم یزل نے ڈال دیا تھا۔ اسی لیے وہ بچوں کو اس قدر عزیز رکھتے تھے کہ راستے پر نظر آجانے والے بچوں کو اُٹھا کر گود میں لے کر پیار کرتے، بوسے دیتے اور بوسے لے کر بچوں سے اپنی والہانہ عقیدت اور ہر دل عزیزی کا ثبوت دیتے ۔ ان کی وفات کے بعد سے ہی جواہر لعل نہرو کی سالگرہ کے روز چلڈرنس ڈے کے اہتمام کی روایت میں شدّت پیدا ہو گئی۔ اس روایت کو روایتی طور پر اور ہلکے میں نہ لیتے ہوئے جواہر لعل نہرو کا مقصد تھا کہ آج کے روز اساتذہ اور والدین یہ قسم کھائیں اور ذمے داری لینے کا عہد کریں کہ (1) بچوں کی تعلیم کو اوّلیت دیتے ہوئے ان کے لیے ہرقسم کی آسانیاں فراہم کی جائیں(۲) بچوں کی اچھی صحت کے لیے ہمیشہ فکر اور ہوش مندی اختیار کی جائے( ۳) ان کو ڈر ، خوف اور مظالم سے بچایا جائے(4)بچوں کو کھیل کود اور نت نئی چیزوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش ہو( 5) بچوں کو اعلیٰ اور اونچے خواب دیکھنے کی مشق کرائی جائے۔
جواہر لعل نہرو کے درج بالا اہم نکتوں کا حوالے دیتے ہوئے کڈس کریسنٹ اسکول کے معتمداحمد وکیل علیمی صاحب نے ہمارے علم میں اضافہ کیا۔ علیمی صاحب نے اپنی گفتگو میں یہ بھی باور کرایا کہ آج کا دن صرف تقریب برپا کرنے اور انجوائے کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ آج کا دن ہمیں مزید ذمے دار اور سنجیدہ ہونے کا درس دیتا ہے۔ یقیناًچلڈرنس
ڈے خوشی کا دن ہے ۔ بچوں کے اندر خوشی، سرگرمی اور ان کی رنگا رنگ کارکردگی دیکھ کر ایک خاص مسرّت سے بغل گیر ہونے نیز دل کو تازگی اور فرحت پہنچنے کا احساس ہوتا ہے۔ اس
اسکول کے بچوں / بچیوں میں چلڈرنس کے حوالے سے اس لیے جوش دیکھا جاتا ہے کہ ہر سال کی طرح امسال بھی اسکول میں
” فینسی ڈریس کمپٹیشن” کا اہتمام کیا گیا۔ ملک کے مقتدر رہنماؤں کے کردار کے علاوہ ڈاکٹر، نرس،ٹیچرس، فوجی، پولس، ٹرافک لائٹ، سبزی فروش اور دھوبی وغیرہ کا رول ادا کرنے میں عمدہ کارکردگی کا مظا ہرہ کرتے ہوئے بچے/ بچیوں نے ٹیچرس کا دل جیت لیا۔ کردار کی مناسبت سے اسٹوڈنٹس کے ملبوسات دعوتِ دید دے رہے تھے ۔
عزیر ارمان اور محمد اویس نے چچا نہرو کے کردار کو قابلِ دید بنادیا۔ درجہ اوّل کے چھوٹے سے اسٹوڈنٹ زین خان نے چچا نہرو کے تعلق سے کہا
” I am pndit Jawahar Lal Nehru. I am the first Prime Minister of India.”
ارمان علی نے پولس کا رول ادا کرتے ہوِئے کہا
“I am an Indian Police. I will fight to save the country.”
درجہ دوئم کے سیف علی خان نے بھگت سنگھ کے کردار میں
متاثر کیا۔ نعمان علی نے Tree کی تصویر کشی کے ذریعہ درخت کی اہمیت اور ضروت کے کردار میں اپنی عمدہ صلاحیت کو ثابت کیا۔
اریشہ خورشید نے مدر ٹریسا کے کردار میں اپنی بہترین ذہانت کے ذریعہ محظوظ کیا۔ درجہ دوئم کے
محمد اعظم علی نے
مولانا ابو الکلام آزاد کا رول ادا کرکے 20 میں سے 19 مارکس کا حقدار بن کر منظور نظر ہونے کا شرف حاصل کیا۔
نورین فاطمہ نے ٹریفک لائٹ کے رول کو بخوبی نبھاکر اپنی بہتر مشق کی نمائش کی۔ اپنے کردار میں جان ڈالنے والے بچے/ بچیوں کو اسپیشل ٹرافی اور اسناد دے کر ان کی ہمّت افزائی کی گئی۔ دیگر بچے/ بچیوں کو بھی کنسولیشن پرائز بطور میڈل سے نوازا گیا۔
اسکول کی ٹیچر دیپ شیکھا، رخسار پروین، السائنا پروین خانم اور سائرہ بانو نے چلڈرنس ڈے کے موضوع پر انگلش کے آسان جملوں کے ذریعہ بچوں میں انگش بولنے کی تحریک کو بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ اس کے علاوہ کولکاتا میونسپل کارپوریشن اسکول کے سابق ہیڈ ٹیچر جناب احمد وکیل علیمی نے چلڈرنس ڈے پر اچھی گفتگو کی۔ انہوں نے ندا فاضلی کے زیر نظر شعر
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کرلیں
کسی روتے ہوئے بچّے کو ہنسایا جائے
کہا کہ نیکی کے لیے مسجد، مندر اور گرجا جاتے ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کی خدمت اور ان کے اندر نیک کام کرنے کی تحریک پیدا کرکے بھی نیکی کرنے کا کام کیا جاسکتا ہے۔ ہم دوسروں کے بچوں کو آگے بڑھانے اور علم کی راہ فراہم کریں گے تو کل اسی طرح ہماری اولاد بھی کسی کی رہبری اور کسی کے زیرِ تربیت ہوگی۔
تنزیل حسن نے واشر مین، ادیرا مختار نے اندرا گانھی، سعدیہ شمیم ڈاکٹر،
Ayzal Ibrahim Hussain نے سانتا کلاوز
، انابیہ عبداللہ Astronout, علی رضا اننا بھائی، ارم ارشاد پولس، عقیبہ قیصر ڈاکٹر،شمع خاتون سبزی فروش،ایشال نبا شہزادی، عتیقہ اقبال صحت مند غذاؤں کے تعلق سے اپنا رول انجام دینے میں ذہانت کا ثبوت دیا۔
پرنسپل مہناز بانو نے تمام والدین، گارجین حضرات اور اسکول کی ٹیچرس کے تعلق سے کہا کہ اس طرح کی کاوشیں ٹیم ورک کہلاتی ہیں۔ والدین اور ٹیچرس کے ساتھ اسٹوڈنٹس کی دلچسپی، محنت اور لگن نے چلڈرنس ڈے کی کارکردگی کو کامیاب اور بامراد کرنے میں قابل ذکر رول ادا کیا ہے اس لیے میں والدین ، ٹیچرس اور علیمی صاحب کابھی ممنون ہوں۔ بچے/بچیوں کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں کہ پروردگار ان کے اندر حصولِ علم کا جذبہ پیدا کرکے انہیں علم کی دولت سے مالا مال کرے اور انہیں ایک فرماں بردار اسٹوڈنٹ، فرمانبردار اولاد اور محبّ ِ وطن بنا ئے۔ آخر میں بچوں کو خوش کرنے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔
رپورٹ: نبیلہ مہوش
Leave a Reply