Today ePaper
Rahbar e Kisan International

یکساں نظامِ تعلیم ، دعوے اور عمل درآمد۔۔

Articles , Snippets , / Wednesday, February 5th, 2025

عامرمُعانؔ

حکومت کے کچھ بیانات محض خبروں کی حد تک ہوتے ہیں ، جن کا مقصد صرف اور صرف عوام کو خوش کن دھوکے میں رکھنا ہوتا ہے ۔ ان بیانات پر اُن کی عمل کرنے کی نیت بالکل بھی شامل نہیں ہوتی ۔ ایسی ہی ایک خبر کچھ دن پہلے نظر سے گزری ، ایک ایسی خبر جو عرصہ دراز سے ہر حکومتِ وقت نے دہرائی ہے ، پر مکمل عمل تاحال ندارد ہے ۔ وہ خبر ہے بہت جلد ملک میں یکساں نظامِ تعلیم کا نفاذ ۔ ملک میں موجود ہر سیاسی جماعت اپنے انتخابی منشور میں عوام سے یہ وعدہ دہراتی آئی ہے کہ جلد پاکستان میں یکساں نظامِ تعلیم رائج کیا جائے گا ، مگر انتخاب جیتنے کے بعد ہر سیاسی جماعت اس وعدے کو وعدہ ء فردا پر ٹال دیتی ہے ۔ عوام بھی اس وعدے کو اب صرف انتخابی نعرہ جانتے ہوئے انتخابات کے بعد آنے والی کسی حکومت سے اس بابت یہ سوال تک نہیں کرتی کہ آخر یہ یکساں نظامِ تعلیم کب اس ملک کے بچوں کے نصیب میں لکھا جائے گا ۔ وہ نظام جس سے امیر غریب یکساں فائدہ اٹھا سکیں ۔ یکساں نظامِ تعلیم سے یہ بات یقینی بنائی جا سکے کہ پاکستان میں صرف اور صرف قابلیت کا راج ہو گا ، اور مملکت پاکستان کے ہر بچے کو اس کی ذہنی قابلیت کے مطابق ہر ہر شعبہ ہائے زندگی میں یکساں مواقع فراہم کئے جائیں گے ، لیکن شائد جیت کر اسمبلیوں تک پہنچتے پہنچتے یہ نعرہ اپنی قدر کھو دیتا ہے ۔ شائد یہ نعرہ ایوانوں میں سن کر حکمرانوں کو اپنی بادشاہت کھو جانے کا ڈر لگ جاتا ہے ، اور ان امراء کو ہر بچے کے لئے برابر کے مواقع سے ان کی اپنی قائم اجارہ داری کے خاتمے کا وہم ، ان سے ان کی حکمرانی چھن جانے کے غم میں بدل جاتا ہے ، اور یوں یہ نعرہ قانون بننے سے پہلے ہی ایوانوں میں کہیں گم ہو جاتا ہے جو اگلے انتخابات پر پھر یاد آتا ہے تب تک جب تک انتخابات اور جیتنے کا عمل مکمل نہیں ہو جاتا ۔ یکساں نظامِ تعلیم سے مراد ایسا تعلیمی نظام ہے جو ملک کے تمام طلبہ کے لیے یکساں معیارات، نصاب، تدریسی طریقے اور مواقع فراہم کرے، تاکہ طبقاتی فرق کم ہو اور ہر بچے کو برابر تعلیمی سہولتیں میسر آئیں۔ اس نظام میں نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں کے درمیان فرق کو کم کرنے، ایک جیسے نصاب اور یکساں تعلیمی مواقع کی فراہمی پر زور دیا جاتا ہے۔اس کا بنیادی مقصد تعلیمی عدم مساوات کا خاتمہ کرنا اور ایک ایسا تعلیمی ڈھانچہ تشکیل دینا ہے جو تمام طبقات کے طلبہ کو یکساں مواقع دے، چاہے وہ کسی بھی مالی یا سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے ہوں۔
ہمارے علم میں روزِ اول سے یہ بات ہے کہ یہ نظامِ تعلیم انگریز کا وہ تحفہ ہے جس سے وہ آزادی سے پہلے غلامی کا طبقاتی نظام بخوبی چلا رہا تھا۔ اُس نے ایک طرف حکمران طبقہ کے لئے انگریزی نظام تعلیم رائج کیا تھا ، تو دوسری طرف عوام کے لئے ایسا غیر معیاری نظام تعلیم متعارف کروایا تھا جس سے سرکار کے نوکر تو پیدا ہوں ، لیکن حکمران یا افسر شاہی کے خوگر پیدا نہ ہو سکیں ۔ معیاری تعلیم حاصل کرنے والوں کے خاص تربیت سے ایسے ذہن بنائے گئے جو اپنے اور عام آدمی میں ایک تفریق رکھ سکیں ، اور عام عوام قطار میں دور سے ہی الگ نظر آتے رہیں ، اگر عام آدمی کا کوئی بچہ کسی طرح کامیابی حاصل کر کے ان خاص ذہنوں کی قطار میں شامل ہونے کی جدوجہد میں کامیاب ہو بھی جائے ، تو وہ اپنے لوگوں سے الگ ہو کر اسی شاہی مزاج کا حامل بن کر اسی قطار میں شامل ہو جائے اور اپنی قطار سے اس ک رابطہ ٹوٹ جائے ، یوں انگریز کا حقِ حکمرانی اسی شان و شوکت سے چلتا رہے ۔ آزادی کے بعد عمومی رائے یہی تھی کہ اس نظام تعلیم کو یکسر بدل کر ایک ایسا یکساں نظامِ تعلیم رائج کیا جائے جو اس تفریق کو ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو ، لیکن اس میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ ذہن تھے جو انگریزوں کے نظامِ تعلیم سے مستفید تھے اور نہیں چاہتے تھے کہ یہ طبقاتی نظام کبھی ختم ہو ، تاکہ ان کی نسلوں تک حکمرانی کے خواب کو چکنا چور نہ ہونا پڑے ۔ سو عوام کو جھوٹے خواب دکھا کر ٹرک کی بتی کے پیچھے تو لگا دیا گیا ہے ، لیکن کبھی ان کی امید کے شجر پر پھل پھول آنے کے لئے بنائے گئے قانون سازی پر عملدرآمد نہیں کیا گیا ، بلکہ طبقات میں موجود اس تفریق کو مزید بڑھاتے ہوئے پورے ملک میں پرائیویٹ اسکولوں کا ایسا جال بچھا دیا گیا کہ دور سے سرکاری اور پرائیویٹ اسکولز کا فرق واضح نظر آئے ۔ سرکاری اسکولوں کا بچہ اس احساس کمتری کا شکار رہے جو ہمیشہ اس کی ترقی میں حائل ہو اور وہ ایک ادنٰی نوکر بننے سے زیادہ کے خواب دیکھنے کا کبھی اہل نہ ہو سکے ۔ پاکستان کا موجودہ تعلیمی نظام طبقات کو مزید گہرا کرتا نظام ہے ، جس میں ایک طرف امراء کے بچوں کے لئے مہنگا پرائیویٹ انگریزی تعلیمی نظام ہے ، تو دوسری طرف مڈل کلاس کے لئے انگریزی/ اردو کے ملغوبہ سے بنا پرائیوٹ تعلیمی نظام ہے ، جبکہ عام غریب افراد کے لئے سرکاری تعلیمی نظام ہے ، جس پر حکومتی خرچ تو سب سے زیادہ ہے لیکن اس کا فائدہ سب سے کم ہے ، اور پھر ایک چوتھا نظام مدارس کا ہے ۔ ان سارے نظام کا مقصد شائد معاشرے میں ہر طبقے کی تفریق قائم رکھنا ہی ہے ۔ حکومتی اسکولوں کا یہ حال ہے کہ ان اسکولوں میں بچوں کو تعلیم دینے والے اساتذہ کرام کے اپنے بچے کسی پرائیویٹ اسکول میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں ۔ اب تک تو کوئی حکومت یہ قانون بھی پاس نہیں کر سکی کہ وہ تمام افراد جو عوامی یا سرکاری عہدے رکھتے ہوں ، اُن کے بچے لازماً سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے ۔ آپ صرف یہ ایک قانون پاس کر لیں اور دیکھیں پھر کیسے یکساں نظامِ تعلیم کی طرف تیزی سے سفر شروع ہوتا ہے ۔ یہ اشرافیہ جو سرکاری خزانے پر عیش تو کرتی ہے ، عوام پر حق حکمرانی بھی رکھتی ہے ، مگر اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانے میں عار کیوں محسوس کرتی ہے ؟ یہ عام آدمی کا بھی فرض ہے کہ وہ سوال اٹھائیں وہ پوچھیں کہ ہمارے بچوں کو وہی تعلیمی سہولیات حاصل کیوں نہیں ہیں ؟ ۔ ہمارے بچوں کے مقدر میں غلامی ہی کیوں لکھی گئی ہے ؟ ۔ کیوں ہمارے ووٹوں سے حق حکمرانی حاصل کرنے والے ہمارے بچوں کو اس ملک کا معزز شہری نہیں دیکھنا چاہتے ؟۔ کیوں قابلیت کی دھجیاں موجودہ تعلیمی نظام کے ذریعے اڑائی جا رہی ہیں ؟۔ کیوں عوام کے نام پر کام کرنے والی سیاسی جماعتیں ، غیر سرکاری تنظیمیں ، سرکاری ادارے صرف خوش کن نعروں کی حد تک ہی یکساں تعلیمی نظام کی بات کرتےہیں ؟۔ عوام کو جاگنا ہو گا اگر وہ اپنے بچوں کا روشن مستقبل چاہتے ہیں ، حکومتوں کو جاگنا ہو گا اگر وہ ملک کی ترقی چاہتے ہیں ، اداروں کو جاگنا ہو گا اگر وہ ایک جدید اور خوشحال پاکستان کا خواب شرمندۂ تعبیر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ہم سب کو جاگنا ہو گا اور سوچنا ہوگا ، جب ہم آزاد ہیں تو ہمارا تعلیمی نظام غلام کیوں ہے ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International