کنزہ حبیب (کوٹ مٹھن)
وہ بیٹھی سوچ رہی تھی، کہ کیا یہی زندگی تھی؟؟ کیا میں نے زندگی میں یہی کچھ دیکھنا تھا؟ جو آج میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ مقدس ایک اچھے گھرانے کی لڑکی تھی۔ وہ چار بہنیں تھیں۔ مقدس ان سب سے بڑی تھی، اور مقدس کی عمر بھی بڑھتی جارہی تھی۔ لیکن اس کا ابھی کہیں بھی رشتہ نہیں ہو رہا تھا۔ جہاں گھر والے پریشان تھے، تو وہاں کچھ کسر ہمسائیوں اور رشتے داروں نے طعنے مار مار کر پوری کر دی تھی۔ “آخر کب تک اسے اپنے گھر بیٹھا کر رکھو گی؟ عمر نکلتی جارہی ہے، پھر بعد میں کون کرے گا اس سے شادی؟” ماسی حمیدہ جو اس کی ہمسائی تھی، رشیدہ سے بولی۔ “آپ کو کیا لگتا ہے خالہ مجھے کوئی پریشانی نہیں؟” رشیدہ نے حیرت زدا انداز میں کہا۔ مقدس ایک سانولی سی رنگت کی لڑکی تھی، لیکن نین نقش بلا کے پیارے تھے۔ پتلی ترچھی ناک، بلا کی بڑی آنکھیں، بھرے ہوئے رخسار اور جب مسکراتی تو دل کرتا اسے دیکھتے جائیں۔ لیکن بس رنگت سانولی ہونے کی وجہ سے کہیں سے اس کا رشتہ نا آتا تھا، اور اس بات کو لے کے اکثر اسے طعنے ملتے کہ کچھ کر لیا کرو اپنا حال دیکھو، تمہاری شادی ہوگی تو باقیوں کا سوچا جائے گا۔ بس وہ اپنا حال صرف اللہ کے آگے رو رو کر اسے سناتی تھی، کیونکہ یہاں اسے سمجھنے والا کوئی نہیں تھا۔ اور آج وہ خالہ حمیدہ کی باتیں سن کر پھٹ پڑی۔ “کیا میں نے کہا خالہ کے میرا رنگ کالا ہو، کیا میں نے کہا کہ میں کسی کو اچھی نا لگوں، ہاں! بتائیں خالہ اب خاموش کیوں بیٹھی ہیں؟” خالہ حمیدہ نے اسے غصے میں دیکھ کر وہاں سے بھاگنے کی کی۔ آخر ایسے ہی دن گزرتے گئے، ایک دن رشتے والی خالہ نے اس کی امی کو بتایا کہ “وہ جو ہے باجی راشدہ، اس کا اکلوتا بیٹا ہے اگر تم وہاں اس کی شادی کرنا چاہو؟” لیکن اس کی رنگت دیکھ کے پھر وہ لوگ بھی منا نا کر جائیں” رشیدہ نے بولا۔ نہیں نہیں بس اس کے بیٹے میں بھی ایک کمی ہے، کہ ایک ایکسیڈنٹ میں اس کے بیٹے کی ٹانگ فریکچر ہوگئی۔ وہ سہی سے چل پھر نہیں سکتا، باقی تو وہ اچھے لوگ ہیں۔ “خالہ آپ کروا دیں وہاں اس کا رشتہ۔” رشیدہ نے سوچتے ہوئے کہا۔ باہر کھڑی مقدس نے سب سن لیا تھا، لیکن وہ کیا کر سکتی تھی۔ سوائے رونے کے اللہ کو شکایت لگانے سے اس سے سوال کرنے کے کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی، کہ کیا یہی زندگی ہوتی ہے؟ جو میری ہے۔ یا وہ ہوتی ہے، جو اچھی خوبصورت، صاف رنگت والی لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ وہ روتے ہوئے کہنے لگی، کہ کاش کبھی کوئی میری جیسی قسمت لے کے اس دنیا میں نا آئے، ورنہ یہ دنیا اسے جیتے جی مار دیتی ہے۔
Leave a Reply