سنتے ہی نہیں دیکھتے بھی آے تھے کہ جونہی رمضان کا مہینہ شروع ہوتا کھانے پینے سے لیکر کپڑے لتے اور کپڑے لتے سے لیکر تمام ضروریات زندگی کی اشیاء یک مشت ہی بڑھ جاتیں،سبرینہ حیات ہمیشہ حیران ہوتی، پریشان ہوتی اور کبھی کبھار تو عالم وحشت میں خواہ مخواہ ہی رونا شروع ہو جاتی، اس طرح رونے سے اس کا کتھارسس ہو جاتا اس کے من کا بوجھ ہلکا ہو جاتا اور وہ دوبارہ نیے حوصلے سے اس ٹیڑھی میڑھی دنیا کے الٹے سیدھے ضابطوں کاسامنا کرنے اور جھیلنے کے قابل ہو جاتی، اتنی تگڑی، منافق اور سیاسی دنیا کے سامنے عام، بے ضرر اور بے حیثیت لوگ اور کر بھی کیا سکتے ہیں بھلا، جب تک سبرینہ حیات کی ماں زندہ رہی وہ اپنا ہر دکھ سکھ ماں کی گود میں سر رکھ کے رو لیتی تھی اور جب ماں چلی گئی تو سبرینہ حیات کے پاس نجانے اتنا حوصلہ کہاں سے آ گیا کہ وہ خود qہی اپنے دکھ پینے کے فن سے آشنا ہو گءی، وہ بخوبی آگاہ تھی کہ یہ ہنر اسے اس پاک ذات نے عطا کیا تھا جو ہماری اور آپ سب کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے. زندگی کی بھول بھلیوں میں سے گزرتے ہوئے جب بھی سبرینہ حیات کے پاوں لہو لہان ہو جاتے، دل کا غبار بڑھ جاتا تو اشکوں کے دریا نینوں کے بند
توڑ کر موسلا دھار بارش کی صورت بہہ جاتے، اور سبرینہ حیات اللہ کے سامنے اپنی محرومیوں اور دکھڑوں کے انبار دھیڑ کر دیتی اور پر سکون ہو جاتی، آپ بھی جب کاروبار حیات سے اکتا جائیں، تھک جایں اور اپنے آپ کو یکہ و تنہا جانیں، بے بس پایں تو اس وحدہ لا شریک کے سامنے اپنے من کا بوجھ ہلکا کر لیا کیجئے، یقین مانیے اس پالن ہار اور دینے والے کا دل اور دربہت بڑا ہے وہ کبھی بھی آپ کو رسوا نہ ہونے دے گا. تو سبرینہ حیات اس ماہ صیام میں یہ دیکھ دیکھ کے خوش ہو رہی تھی، کہ اس رمضان میں نہ تو آٹے چاول کے دام بڑھے نہ سبزیوں کے، نہ ہی کپڑے لتے کی قیمتیں آسمانوں پہ پہنچیں نہ ہی دیگر ضروریات زندگی، بلکہ ہر شے اس گرانی کے دور میں بھی نہ صرف کم قیمت پہ میسر تھی بلکہ وافر مقدار میں موجود بھی تھی اور سب سے زیادہ تسلی بخش بات یہ تھی کہ غریب غربا جو پہلے کوی بھی شے خریدنے سے پہلے سو دفعہ سوچتے اور پھر قیمت معلوم ہونے پہ للچای ہوی نظروں سے من پسند سامان کو دیکھتے پھر اپنی جیب کو دیکھتے اور دل کی حسرتیں دل میں لیتے ہوئے ہی خالی ہاتھ ہی گھروں کو لوٹ جاتے اور افطاری اپنے اپنے صبر کو اوڑھ کر، کر لیتے. ایسے ایسے بدبخت گھرانے بھی دیکھے جو رمضان کے اختتام پہ پورے پورے کنبے کو نیند کی گولیاں کھلا کر ابدی نیند ہی سو گیے کہ عید کے دن پہننے کے لیے نیے کپڑے معاشی تنگدستی کی وجہ سے نہ بنا پاے تھے وجہ جو بھی رہی ہو بیروزگاری یا مہنگائی، لوگ تو موت کا شکار ہو گیے ناں، لیکن اس رمضان پہ سبرینہ حیات کاخون سیروں بڑھ گیا جب اس نے مہنگائی کے جن کوبوتل میں بند اور عوام کو خوشی سے چہچہاتے، مسکراتے اور بے دریغ شاپنگ کرتے دیکھا، مخیر حضرات نے بھی خزانوں کے منہ عوام کے لیے کھول دیے تھے، صدقہ خیرات بھی دونوں ہاتھوں سے دیا جا رہا تھااور تو اور کءی لوگ سر عام روپے بھی بانٹتے دکھای دیے، شہر میں سے بھکاری تو جیسے ایک دم ہی ختم ہو گیے تھے.
ہر چہرے پہ خوشحالی کی چمک نے پورے ماحول کو جگمگا دیا تھا. اور سب سے بڑی بات جس نے سبرینہ حیات کا خون سیروں بڑھا دیا تھا کہ وزیر اعظم نے تمام بیروزگاروں کے لیے روزگار کی فراہمی بھی یقینی بنا دی تھی، سبرینہ حیات کی تو خوشی کی انتہا نہ تھی اس کا سر اللہ پاک کے حضور سجدے میں جھک گیا اور اس نے جب دو نفل شکرانے کے ادا کرنے کے لیے وضو کے لیے اٹھنا چاہا تو اس کی آنکھ کھل گءی اس کا دل ٹوٹ گیا تو کیا وہ خواب میں یہ تمام خوشحالی دیکھ رہی تھی اس نے اللہ پاک سے تہجد میں گڑ گڑا کے اپنے اہل وطن کے تمام مسایل اور مشکلات کے خاتمے کی دعا کی.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com
Leave a Reply