تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

۔(جس نے غربت کتابوں میں پڑھی ہو سردی صرف شیشے کی کھڑکیوں سے دیکھی ہو وہ شخص غریب کی نمائندگی خاک کرے گا)

Articles , Snippets , / Wednesday, August 28th, 2024

آجکل اوسطاً عمر ساٹھ برس ہے ۔مگر ہمارا عزت مآب بزرگ
ستتر برس کا ہوگیا ہے۔لیکن۔حالات وہی ہجرت والے ہیں۔لوگ اب بھی مایوس ہیں ۔وہی بے چینی وہ ہر ضرورتِ زندگی کی کمی ۔خالص قومیں تو پہلے پچیس تیس برس میں کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہیں۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا
اس شخص کے مزاج کی تلخی نہیں گئی
ہم محو التماس رہے کچھ نہیں بنا.
ایک روز ترک محبت پہ خوش ہوئے
کچھ دن تو بدحواس رہے کچھ نہیں بنا.

دوسری جنگِ عظیم میں ہیروشیما ناگاساکی بلکل تباہ ہوچکے تھے ۔جاپان ختم ہوچکا تھا ۔مگر زندہ قوم ہیں آج ایک بار پھر اُن کافروں میں خوشحالی عروج پر ہے ۔اور ہم مسلمانوں میں مایوسی عروج پر ہے ۔حالانکہ مایوسی حرام ہے ہمارے دین میں لیکن ہمیں تو حکمران ہی ایسے ملے ۔جنہوں نے غربت صرف کتابوں میں پڑھی ہے اور سردی شیشے کی کھڑکیوں سے دیکھی ہے۔یہ کیا خاک غریبوں کی نمائندگی کریں گے جن کو غریبی کا غ معلوم نہیں۔ان کو کیا پتا اپنے گھر سے دربدر ہونا جھوپڑیوں میں رہنا سسکیاں بھر بھر کے رونا بچوں کو حوصلہ دینا خود بھوکا سونا بچوں کو کھلانا مال مویشی بھی ساتھ باندھنا ۔کبھی کسی ماں سے اس کا لال چھن جانا۔کبھی کوئی بزرگ کا پانی میں گم ہوجانا۔دیواروں کا گر جانا بے پردگی ہو جانا ۔بچوں کا روٹی روٹی کے نام پہ چلانا ۔یہ میرے لندن والے حکمران کہاں سمجھے گے۔ان کو تو بس اتنا معلوم ہےکہ ۔جب زیادہ بارش آتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے ۔مگر جب وہ زیادہ بارش پہاڑوں پر آتی ہے تو نیچے رہنے والی مخلوق کا کیا ہوتا ہے یہ میرے نواب حکمران کو علم نہیں ۔کئی عرصے سے یہی سیلاب آرہا ہے ۔لوگوں کو رُلا رہا ہے مگر مجال ہے کہ ہماری کسی گورنمنٹ نے بھی اس کا مستقل حل نکالا ہو۔آتے ہیں امداد دیں کر چلے جاتے ہیں۔ان بے حس ظالموں کو ہمارے دکھ درد کیا معلوم ان کو تو اپنی لڑائیوں سے ہی فرصت نہیں ملتی
بقول شاعر؛
جسے خود سے ہی نہ ہو فرصتیں نہ خیال اپنے کمال کا
اسے کیا خبر میری ذات کی اسے کیا پتا میرے حال کا.

یہی ہر سال کا سیلاب تھا جو سالہا سال پہلے غازی خان کے مقبرے کا سینہ چیر کر آگے کی طرف بڑھ جاتا تھا مگر شہری آبادی بڑھنے کے بعد سیلاب کا رخ بدلہ گیا اور اسے پھر دیہاتوں کی جانب کر دیا گیا مگر افسوس صدا افسوس کہ بے حس ظالموں نے سیلاب کا راستہ تو بدل دیا مگر کوئی ڈیم نہ بنایا اس کے راستے میں تاکہ پانی ضائع بھی نہ ہو بجلی بھی پیدا ہو اور لوگوں کو سہولیات بھی ملے۔کھیت بھی سیراب ہوں کچھ کو روزگار بھی ملے۔مگر کسی کو کیا فرق پڑتا ہے خود تو وہ محفوظ ہوتے ہیں البتہ ایسے موسموں سے محظوظ ہوتے ہیں جن موسموں میں ہم رعیا ذلیل ہوتے ہیں۔اگر آئے بھی تو ہیلی کاپٹر پر آئے اوپر کا چکر لگایا پھر چلے گئے ۔جا کر پریس کانفرنس کی کشکول ہاتھ میں اور جناب دوسرے ملکوں سے فریاد کر رہے ہیں ہماری سن لو مدد کر دو ہمیں آفتوں نے برباد کر دیا ۔آفتوں نے نہیں بلکہ تم سیاست دانوں ملعون انسانوں نے اسے برباد کر دیا ۔میرے خیال سے تم لوگوں کو ملعون انسان کہنا بھی لفظ انسان کے لئے باعثِ شرمندگی ہوگا ۔انسان کا تو بہت بڑا مقام ہوتا ہے بقول شاعر
فرشتے سے بہتر ہے انساں بننا
لیکن اس میں لگتی ہے محنت زیادہ
ہمارے ذلیل حکمرانوں کا کام نہیں انسان بننا ۔یہ حیوان صفت ہیں ۔میرے ملک کو کھائے جا رہے ہیں ۔بڑے لوگ حکومتیں چلائے جا رہے ہیں۔سیلفیاں بنائی جا رہی ہیں۔ٹک ٹاک پر سجائی جا رہی ہیں ۔سب کو خیال ہے اپنا نہیں خیال تو روٹی ٹکر کے لالے پڑی عوام کا نہیں۔ہر سال کوہ سلیمان برباد کر کے رکھ دیتا ہے ڈیرے کے غریبوں کو پرنتُوں کوئی کسم پرسی والا نہیں سبھی کو اپنی عیاشیوں سے فرصت ہی نہیں ۔لوگ کس حال میں ہیں یہ میرے حکمران کو خیال ہی نہیں ۔بس اس کو تو ہنر ہے کہ اس غریب کو کس طرح ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جائے کیسے کیسے اسے بیوقوف بنایا جائے اس کو لوٹا جائے کھایا جائے ۔اس کے نام کی امداد بٹوری جائے پھر اس کو مل کر کھایا جائے ملنے سے یاد آیا ہماری ملکی سیاست میں ملنے کی باتیں ہو رہی تھی ۔اگر سارے مل گئے تو مل کر کھائے گے عوام کو رلائے گے ۔نہیں تو کم سے کم اپوزیشن کا تو خوف ہوتا ہے کہ کچھ کریں اس بیوقوف عوام کے لئے ۔ورنہ اپوزیشن وار خالی نہ جانے دے گی ۔لیکن اس اپوزیشن کی بھی کیا بات ہے فقط اُس دن نام کے نکلے تھے اب نہیں نکل رہے۔لیکن یہ لوگ بھی مجبور ہیں خوف کھا جاتا ہے ۔خیر اس بار ہمیں امداد نہیں اس سیلاب کا مستقل حال چاہیئے۔ہمارے ساتھ مزید کھلواڑ نہ کیا جائے ہمیں مزید محروم نہ رکھا جائے۔مزید ہماری عزتوں کی پامالی نہ ہونے دی جائے مزید ہماری کچی پکی فصلیں نہ برباد ہونے دی جائے۔ زرا سوچیئے کیا حال ہوتا ہوگا اس کسان کا جس کے کھیت میں سارا پانی ہو جس کی فصل برباد ہوگئی ہو اور اس کا کھیتی باڑی کے سوا کوئی ذریعہ آمدن بھی نہ ہو ۔اس بار ہمیں انصاف چاہئیے ہمیں خوف نجات چاہیئے سکول کالج سے تو محروم رکھا ہی ہے لیکن ہمیں سیلاب سے نجات چاہییے ۔اندھی گورنمنٹ کو چاہیئے کہ اس سیلاب کا کوئی مستقل حل نکالے ۔
ہو سکتا ہے کہ قیامت آ گئی ہو اور ہم جہنم میں رہ رہیں ہوں
اس دعا اس امید کہ ساتھ مجھے دیجیئے اجازت کہ اللّٰہ پاک آپکا ہمارا ہم سب کا اور امتِ مسلمہ کا ہامی و ناصر ہو

(سلطان غازی)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International