وہ دل جو کب کا ٹوٹ گیا ،اس دل کا حال بتائیں کیا
جو بے خبری میں مارے گئے،روداد وہ اپنی سنائیں کیا
وہ غزلیں اور کچھ نظمیں تھیں جو ہجر میں اس کے لکھی تھیں
جب وہ ہی نہ ان کو سمجھ سکے ، ہم دنیا کوسمجھائیں کیا
ہم پیار کا جب اقرار کریں وہ نفرت کا اظہار کریں
جو مڑ کے بھی نہ دیکھے ہمیں اب اس کے پیچھے جائیں کیا
انسان ہی دشمن انساں کا، نہیں اس کے سوا کوئی اور نہیں
جہاں ڈسنے کو انسان بہت ،سانپوں سے پھر ڈسوائیں کیا
چل اٹھ بھی جا تم ؔفرزانہ اس بستی سے اب کوچ کرو
جہاں درد کا درماں کوئی نہیں،وہاں زخم اپنے دکھائیں کیا
فرزانہ صفدر ۔ دوحہ قطر
Leave a Reply