یہ کس نے چاہا تھا خُلد سے آدمی
زمیں پر پٹخنا
خدا نے آخر کہاں سے سیکھی
ہوس انا کی ؟
کہ ایک پل میں
ہزار صدیوں سے گوندھی مٹی
سے بنا کے آدم
کو پھر سے مٹی بنا دیا تھا
مرے مطابق خدا بھی شک کا
لباس اوڑھے
وہ اپنے کُن سے یقین توڑے
کسی کی باتوں میں آگیا تھا
مجھے تو شک ہے خدا بھی ابلیس ہی کی چالوں
میں آگیا تھا
وگرنہ اک خوشے میں تھی طاقت
بھلا ہی کتنی
وہ ایک آدم
جسے نہ عقل و شعور کی تھی خبر ذرا بھی
نہ یہ کہ گندم میں زرد سے پہلے مرحلہ ہے ہرا بھی
جسے نہ رنگوں کا کچھ پتا تھا
جسے نہ ڈھنگوں کا کچھ پتا تھا
جسے نہ شک تھا
جسے نہ پک تھا
اسے نکالا تو کیوں نکالا؟
سوال کیا تھا ؟
جواب کیا ہے؟
کسے خبر ہے ؟
خدا کا شک تھا ؟
کہ چالِ ابلیس ؟ کیوں میں الجھا ہوں اس تشکک
کے فلسفے میں
میں کون ہوتا ہوں
ان سوالوں کو بے وجہ یوں اٹھانے والا ؟
ہاں یاد آیا
میں آدمی ہوں ۔۔۔!
میں آدمی ہوں…!
میں بھی محبت کی اک کٹھن راہ میں
یقین کے جوتے
اتار کر شک کے موزے پہنے
ہوئے چلا تھا
مجھے تو حق ہے
کہ میں اٹھاؤں
سوال سارے
زوال سارے ۔۔۔!
ناصر زملؔ
Leave a Reply