اظہر عباس
جہاں تو دیکھ رہا ہے ، وہاں نہیں ہوں میں
تجھے بتا تو چکا ہوں ، یہاں نہیں ہوں میں
یہ ٹھیک ہے ، مَیں ترے کام کا نہیں ، نہ سہی
یہ جانتا ہوں ، مگر رائیگاں نہیں ہوں میں
ذرا سی دیر لگے گی مجھے سمجھنے میں
سلگتی آگ ہوں ، کوئی دھواں نہیں ہوں میں
فلاں فلاں سے کوئی واسطہ نہیں ہے مرا
ترے حساب سے یوں بھی فلاں نہیں ہوں میں
تمہیں یہ کیسے بتاؤں کہ ساتھ کب تک ہوں
کہ یوں بھی لمحۂ آئندگاں نہیں ہوں میں
یہ اشک اور کسی غم کی دین ہیں ، اظہر!
تمہارے ہجر میں گریہ کناں نہیں ہوں میں
Leave a Reply