December 27, 2024
تازہ ترین / Latest
,Literature - جہانِ ادب / Sunday, December 1st, 2024

ڈاکٹرپونم نورین گوندل کی کتاب ” پونم کی رات میں


محمد آصف جاوید

شاعری کے افق پر چمکتے ستارے کی طرح ادب اور شاعری میں فکرِ تازہ کے متلاشی راہرووں کے لیے امید کی وہ کرن بن کے سامنے آئی ہے جس کے جلو میں مضامین، استعارات، تشبیہات، تلمیحات ، حقائق، آپ بیتیوں اور سانحوں کے وہ وہ سانچے ڈھل کر سامنے آرہے ہیں جن کے وجود سےپھوٹنے والی روشنیاں آنے والوں کے لیے مشعلِ راہ اور تازگی کا باعث ہیں۔
جیسے جیسے کتاب پڑھتے جاتے ہیں تو آشکار ہوتا چلا جاتا ہے کہ ڈاکٹر پونم نورین نے سہمی صبحوں ، گونگی دوپہروں، بہری شاموں اور اندھی راتوں کی نجانے کتنی بیتی ، دیکھی اور سنی جانے والی کہانیوں کو اپنے احساسات کی بھٹی میں کندن بنا کر شاعری کے کینوس میں پرو کر کتابی فریم کے سپرد کیا کہ انہیں پڑھنے والی ہر آنکھ ان الفاظ کی تیرگی کو محسوس کرتی ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ شاعر کسی معاشرے کی تیسری آنکھ ہوتا ہے اور اپنے محسوسات کو جب نوکِ قلم کے سپرد کر کےدوسرے انسانوں کے سامنے پیش کرتا ہے تو سننے والے ہر کان کے ذریعے دل و دماغ پر اپنا نقش چھوڑتا ہے اور وہی نقش دوسرے انسانوں کو اس شاعر کی شخصیت سے جوڑتا ہے کہ ہر سننے والا کان اور ہر دیکھنے والی آنکھ شاعر کی طرح حساس نہیں ہوتی اور محسوسات کی سیڑھیاں چڑھ کر زیبِ قرطاس نہیں ہوا کرتی۔
“پونم کی رات میں” کئی دنوں سے میرے زیرِ مطالعہ ہے اور میں حیران بھی ہوں کہ ڈاکٹر پونم نورین نے اپنے اندر حالات و واقعات اور تخیلات کا کیسا کیسا کرب سمیٹ رکھا ہے اور اسی کرب سے آشنائی کی جھلک ان کی غزلوں میں مجھے نظر آئی۔ ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر پونم صاحبہ انتہائی حساس اور دوسروں کے لیے ہمیشہ نرم گوشہ رکھنے والی شاعرہ ہیں اور ان کے انداز و اطوار اور دوسروں کے ساتھ برتائو نے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ ہم اجنبی ہیں یا پہلے کبھی نہیں ملے۔ ان سے مل کر یا فون پر بات کر کے ہمیشہ ایسی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے جو والدین کے گزر جانے کے بعد اپنے بہن بھائیوں سے بے لوث ملاقات کر کے ہوا کرتا ہے۔
ڈاکٹر پونم سے میری شناسائی محترم جناب نذیر قیصر صاحب کے ذریعے ہوئی جس پر میں میڈم عابدہ قیصر اور نذیر قیصر صاحب کاانتہائی ممنون ہوں کہ انہوں نے ایسی شخصیت سے مجھے متعارف کروایا ہے نہ صرف یہ کہ انتہائی قابل ڈاکٹر ہیں بلکہ احساس اور اخلاقیات میں بلاشبہ اتنی معتبر ہیں کہ دوسروں کو ان کی ذات کا حوالہ بطور مثال پیش کیا جا سکتاہے۔
شعر کہنا میرے لیے نہ تو فارغ وقت کا مشغلہ ہے اور نہ ہی مجھے کبھی خود نمائی کا شوق رہا ہے میں تو خود پیشے کے لحاظ سے پیٹرن ڈیزائنر ہوں اور پاکستان کے معروف برانڈ میں بطور سیمپلنگ ٹیم لیڈ کام کرتا ہوں۔ مجھے اپنے جذبات اور محسوسات کو اظہار کا پیرہن پہنانے کے لیے شاعری سے بہتر اور موثر پیرایہ ملتا ہی نہیں۔ میرے لاشعور کی تہہ میں بکھرے ہوئے تجربے اور مشاہدے حرف حرف اور نقطہ نقطہ شعور کی پلکوں سے حواس کے آئینہ خانہ میں اترتے ہیں اور شعر کی صورت میں بکھرتے چلے جاتے ہیں۔ یا پھر کبھی کبھی میں اپنے دردِ دل کو لفظوں کا لباس پہنا کر اپنے سننے اور دیکھنے والوں کی سماعتوں اور بصارتوں کی نذر کر دیا کرتا ہوں ۔اچھی شاعری اور اچھے لوگ میری ہمیشہ کمزوری رہے ہیں اور میں ایسے لوگوں سے مل کر ان سے بات کر کے ہمیشہ اچھا محسوس کرتا ہوں جو میری روح اور دل و دماغ کو تروتازہ احساس دلاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحبہ کی کتاب کوپڑھ کے اور دیکھ کر بصارت خیرہ ہوئی جاتی ہے اور خیالات کا ایک اژدھام ہے جو سپردِ قلم ہونے کو بے قرار ہے۔ مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کون کون سے خیال کو لفظوں کے سانچوں میں ڈھال کر سپردِ قلم کروں اور کس خیال کو چھوڑوں کہ ہر خیال اپنے اندر ایک جہان سمیٹے ہوئے ہے اور قلم کی زمین پر آباد ہونے کو بے قرار ہے۔ڈاکٹر صاحبہ کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیے گا ۔۔۔
قدیم شہر کی گلیاں مجھے بلاتی ہیں
یہیں کہیں میرا گھر ہے شعور بولتا ہے
وہ آ رہا ہے ستاروں پہ پائوں رکھتے ہوئے
یہ روشنی کا سفر ہے شعور بولتا ہے
زندگی سے قطرہ قطرہ سچ کشید کرنا اور پھر اس روشنی کی دمکتی ہوئی پیشانی سے پھوٹتی شاعوں کے ریشم سے بنے خیالوں کی ردا پر شاعری کاڑھنا حد درجہ مشکل کام ہے مگر ڈاکٹر پونم نورین بڑی سہولت سے اس مشکل کام کو کرتی چلی جارہی ہیں۔ کچھ اور اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔

نہ کوئی ناز اٹھائے گا اب ہماری طرح
حریمِ دل کی حقیقت سمجھ نہ پائو گے
ابھی جوشِ جوانی بہا رہا ہے تمہیں
کبھی تو لوٹ کے پونم کی سمت آئو گے

آج کے دور کا نہیں قصہ
جانی دشمن ہیں اپنے یار بہت
میرے نزدیک ڈاکٹر صاحبہ کی کتاب ادب میں بہت خوبصورت اضافہ ہے اور شاعری پڑھنے اور سمجھنے والوں کے لیے اس میں مطالعاتی اور موضوعاتی شاعری کے علاوہ جذباتی اور حادثاتی نوحوں کا برملا ذکر بھی ہے جو ڈاکٹر پونم صاحبہ کو عصرِ حاضر کے دیگر شعرا میں ممتاز کرتا ہے۔
میں دعا ہے ربِ سخن ان کے قلم کو مزید نکھار عطا کرے اور ان کے لیے ہمیشہ آسانیاں پیدا کرکے اور انہیں آسانیاں بانٹنے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International