ماہ دسمبر خصوصی افراد کے حوالے سے یوں بھی بہت اہم ہے کیوں کہ اس ماہ میں عام لوگوں کی آگاہی کے لئے خصوصی افراد کا عالمی دن 3 دسمبر کو منایا جاتا ہے ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی دنیا بھر کیساتھ ساتھ پاکستان میں بھی یہ دن منایا گیا اور اس حوالے سے اعلی شخصیات نے خصوصی پیغامات بھی جاری کئے اور خصوصی افراد کے لئے ملک کے طول و عرض میں خصوصی تقاریب کا انعقاد بھی کیا گیا۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ اتنے سالوں سے ہونے والے ان تمام اقدامات کے باوجود بھی لوگوں میں خصوصی افراد کے حوالے سے آگاہی تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ان تمام تقاریب میں نشستن اور گفتن سے آگے ہو کر بات عوامی شعور تک نہیں پہنچ پا رہی ہے۔ پاکستان میں خصوصی افراد کےلئے کام کرنے والی این جی او نیٹ ورک آف آرگنایزیشنز ورکنگ فار پیپل ود ڈس ایبیلیٹیز پاکستان کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت یہ کنفرم کرتی ہے کہ دنیا میں کل آبادی کے %16 افراد ان ہی خصوصی افراد کے زمرے میں آتے ہیں ۔ اب اگر اس تناسب کو ہم اپنے ملک کے سیاق و سباق پر لاگو کریں تو ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ان خصوصی افراد کی تعداد تقریباً دو کروڑ ستر لاکھ سے تین کروڑ تیس لاکھ افراد کے درمیان بنتی ہے ۔ یہ ایک بہت بڑی تعداد بنتی ہے لیکن آپ اندازہ کریں کہ اتنی بڑی تعداد پر مشتمل افراد کے لئے کیا ملک میں مناسب سہولیات موجود ہیں؟
کیا ان افراد کے لئے دفاتر میں خصوصی افراد دوست ماحول بنایا گیا ہے ؟ ہمارے بازاروں میں کیا ان افراد کے لئے مخصوص سہولیات موجود ہیں ؟ ہمارے تعلیمی اداروں میں ان افراد کی مناسب تربیت ہو پا رہی ہے ؟ کیا ہمارے ادارے عوام میں ان خصوصی افراد کے بارے میں آگاہی مہم کے ذریعے آسانیوں کے دروازے کھول پا رہے ہیں ؟ کیا یہ خصوصی افراد ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں یا ان کو ایک بوجھ سمجھ کر ناکارہ پرزہ قرار دیا جا رہا ہے ؟ کیا وجہ ہے کہ تمام تر وعدوں کے باوجود ان کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے جا رہے ۔
یہاں تک کے سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اتنی بار مردم شماریاں ہونے کے باوجود ان خصوصی افراد کی ملک میں حقیقی تعداد کا ابھی تک درست اندازہ اس لئے نہیں لگایا جا سکا ہے کہ مردم شماری کرنے والے افراد کو اس حوالے سے کوئی خاص تربیت نہیں دی جاتی کہ ان کا اندراج کس طرح کیا جائے اور کون کون افراد خصوصی افراد کے زمرے میں آتے ہیں ۔ اب ایک طرف تو یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف ان کے لئے کوئی مخصوص شناخی کارڈ تک جاری نہیں کیا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے ان کی شناخت میں آسانی ہو اور مردم شماری میں اس کارڈ کے ذریعے اپنا اندراج الگ سے کروا سکیں ۔ اور اس اندراج کی صورت میں ان کی مخصوص ملازمت کا کوٹہ آسانی سے ان تک پہنچایا جا سکے۔
ہر سال خصوصی افراد کے دن کے موقع پر یہ نوید تو ضرور سنائی جاتی ہے کہ جلد خصوصی افراد کے لئے قانون سازی کی جا رہی ہے، ان کے لئے الگ ڈیٹا سسٹم بنایا جا رہا ہے۔ ان کے لئے ملازمتوں میں رکھا گیا الگ کوٹہ پر ان کی تقرری یقینی بنائی جا رہی ہے ۔ لیکن کیا وجہ ہے اس کے باوجود اب تک ایک بڑی تعداد بے روزگاری کے اندھیرے میں روشنی کی کرن کی منتظر ہے ۔ اور تاحال مکمل شفافیت سے ان کے حقوق کی طرف توجہ نہیں دی گئی ہے ۔
اس سال بھی وزیراعظم اور صدر پاکستان نے اس بات کا دوبارہ اعادہ کیا ہے کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں خصوصی افراد کی شرکت یقینی بنانے کے لئے وہ پر عظم ہیں ۔ صدر پاکستان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ٹیکنالوجی اور عوامی مقامات تک ان کی رسائی ہر ممکن طور پر یقینی بنائی جائے۔ ایسے سازگار قانونی ، سماجی اور معاشی حالات پیدا کیے جائیں کہ خصوصی افراد کے لئے اعلی معیاری تعلیم کا حصول با آسانی ممکن ہو سکے ، اور وہ ملکی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں ۔ وزیر اعظم نے بھی خصوصی افراد کی آسانیوں کے لئے بھرپور اقدامات پر زور دیا۔ اور اپنی حکومت کے ان اقدامات کا ذکر کیا کہ کس طرح یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ خصوصی افراد کو مساوی مواقع میسر آئیں اور وہ ایک باعزت زندگی گزار سکیں۔
پاکستان کو آزاد ہوئے 77سال ہو گئے ہیں اور اب یہ لازم ہے کہ ان خصوصی افراد کی فلاح و بہبود پر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ یہ معاشرے کے فعال کردار بن کر اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کر سکیں۔ اس سلسلے میں ہماری گزارش ہے کہ حکومت کو خصوصی افراد کی بہبود کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا چاہیے ۔ ان خصوصی افراد کو اسکول ، کالج اور یونیورسٹیز کی سطح پر زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں تا کہ ان میں تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی ہو سکے ۔ ان کی سمجھ بوجھ کے مطابق ان کی پرورش کی کوشش کرنی چاہیے ۔ روزگار کی فراہمی اور زندگی کے ہر شعبے میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئیے ۔ ان کے ساتھ پیش آنے والی معاشرتی نا انصافیوں کو دور کرتے ہوئے ایسا ماحول دینا چاہئیے جس سے وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں اور معاشرے کے مفید اور کارآمد شہری بن سکیں ۔ رنگ ،نسل اور ذات سے بالاتر ہو کر خصوصی افراد کی بحالی میں انفرادی و اجتماعی طور پر سب کو بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ ہم اللہ تعالٰی اور پیارے رسول کی بارگاہ میں بھی سرخرو ہو سکیں اور یہ خصوصی افراد ملکی کہ ترقی میں بھرپور کردار ادا کر کے با عزت زندگی گزار سکیں۔