December 27, 2024
تازہ ترین / Latest
,Pakistan - پاکستان,Snippets / Tuesday, December 17th, 2024

سقوط ڈھاکہ: پاکستان کے لیے ایک ناقابلِ فراموش سانحہ


دسمبر16, 1971 کو ڈھاکہ کا سقوط پاکستان کی تاریخ کے سب سے دردناک اور اہم واقعات میں سے ایک ہے۔ مشرقی پاکستان، جو اب بنگلہ دیش ہے، کا مغربی پاکستان سے علیحدہ ہونا نہ صرف جغرافیائی بلکہ قومی یکجہتی اور جذبات کے لحاظ سے بھی ایک بڑا نقصان تھا۔ یہ واقعہ پاکستانیوں کے لیے سیاسی بدنظمی، سماجی ناانصافی، اور بیرونی مداخلت کے نتائج کا دردناک یادگار ہے۔ یہ تاریخ کا ایک باب ہے جو آج بھی گہرے جذبات کو جنم دیتا ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک ناقابل فراموش سبق ہے۔
قائدِ اعظم کا پاکستان 1947 میں اس تصور کے تحت قائم ہوا تھا کہ برصغیر کے مسلمان ایک قوم کے طور پر متحد ہوں۔ تاہم، مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان جغرافیائی اور ثقافتی فرق ابتدا ہی سے ایک بڑا چیلنج تھا۔ آبادی کے لحاظ سے اکثریت ہونے کے باوجود، مشرقی پاکستانیوں کو سیاسی، معاشی، اور ثقافتی طور پر مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے ہاتھوں مسلسل نظرانداز کیا گیا۔
مشرقی پاکستان کے شکوے اور شکایات دہائیوں کی عدم مساوات کا نتیجہ تھے۔ معاشی طور پر، مشرقی پاکستان، جو اپنی پٹ سن کی پیداوار کی وجہ سے ملک کی برآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ تھا، قومی ترقیاتی فنڈز کا ایک غیر متناسب حصہ حاصل کرتا تھا۔ سیاسی طور پر، مغربی پاکستان کی مرکزی حکومت اکثر مشرقی پاکستانیوں کے جائز مطالبات کو نظرانداز یا مسترد کرتی رہی۔ 1948 میں اردو کو واحد قومی زبان کے طور پر مسلط کرنا، مشرقی پاکستان کی بنگالی اکثریت کو نظرانداز کرتے ہوئے، خطے کو مزید تنہائی کی طرف لے گیا۔ ان مسائل نے مشرقی پاکستان کے عوام میں عدم مساوات اور ناراضگی کا احساس پیدا کیا۔
1970 کے عام انتخابات کے بعد سیاسی تقسیم اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ ان انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے بھاری اکثریت حاصل کی اور قومی اسمبلی میں اکثریتی نشستیں جیت لیں۔ یہ انتخابی کامیابی عوامی لیگ کو حکومت بنانے کا حق دیتی تھی۔ تاہم، مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ، جنرل یحییٰ خان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں، نے اقتدار منتقل کرنے سے انکار کر دیا۔ اس فیصلے نے مشرقی پاکستان میں بداعتمادی کو مزید گہرا کیا اور انہیں اس بات پر قائل کر دیا کہ ایک متحدہ پاکستان میں ان کی آواز کبھی نہیں سنی جائے گی۔
صورتحال مارچ 1971 میں “آپریشن سرچ لائٹ” کے آغاز کے ساتھ مزید خراب ہو گئی، جو مشرقی پاکستان میں خودمختاری کی تحریک کو دبانے کے لیے ایک فوجی کارروائی تھی۔ حکومت نے اس کارروائی کو امن و امان برقرار رکھنے کی کوشش کے طور پر جائز قرار دیا، لیکن تشدد کی شدت، بشمول عام شہریوں کی ہلاکتوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، اور تباہی کی خبروں نے عالمی سطح پر مذمت کو جنم دیا۔ اس فوجی کارروائی نے نہ صرف بنگالی آزادی کی تحریک کو مضبوط کیا بلکہ بحران کی طرف عالمی توجہ بھی مبذول کروائی۔
بھارت نے ڈھاکہ کے سقوط کے واقعات میں اہم کردار ادا کیا۔ مشرقی پاکستان سے بھارت میں پناہ گزینوں کی بڑی تعداد نے ایک انسانی بحران پیدا کیا، جس نے بھارت کو مداخلت کے لیے جواز فراہم کیا۔ مکتی باہنی، یعنی بنگالی مزاحمتی تحریک، کی حمایت سے لے کر دسمبر 1971 میں مکمل فوجی مداخلت تک، بھارت نے پاکستان کے اندرونی اختلافات کا فائدہ اٹھایا اور اپنے جغرافیائی و سیاسی مقاصد حاصل کیے۔ پاکستان کے لیے یہ مداخلت اس کی خودمختاری پر براہ راست حملہ سمجھی گئی۔ تاہم، فوج، جو پہلے ہی مشرقی پاکستان کی صورتحال سے نمٹنے میں مشکلات کا شکار تھی، بھارت کی منظم فوجی کارروائی کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہی۔ 16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ میں پاکستانی افواج، جن کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل اے اے کے نیازی کر رہے تھے، بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوئیں، جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا۔ پاکستانیوں کے لیے مشرقی پاکستان کی علیحدگی محض ایک سیاسی نقصان نہیں تھا بلکہ ایک گہرا زخم تھا۔ تقسیم کی وجہ سے کئی خاندان ایک دوسرے سے بچھڑ گئے، اور متحدہ پاکستان کا خواب چکناچور ہو گیا۔ ڈھاکہ کا سقوط 1947 میں پاکستان کے قیام کے خواب کے ٹوٹنے کی علامت تھا۔
93,000 پاکستانی فوجیوں کا ہتھیار ڈالنا، جو دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑی فوجی شکست تھی، قومی سطح پر شرمندگی کا باعث بنی۔ اس واقعے نے حکمرانی، فوجی حکمت عملی، اور ریاست کی اتحاد برقرار رکھنے کی صلاحیت کے بارے میں سوالات اٹھائے۔ 1971 کے سانحے نے پاکستان کو داخلی چیلنجوں کا سامنا کرنے پر مجبور کیا، جن میں قومی ہم آہنگی کو مضبوط کرنے اور زیادہ شمولیت پر مبنی حکمرانی کی ضرورت شامل تھی۔
سقوط ڈھاکہ سے پاکستان کے لیے کئی اہم سبق ملتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ علاقائی شکایات کو دور کرنا اور مساوی ترقی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ مشرقی پاکستان کو درپیش اقتصادی نابرابری اور سیاسی اخراج اس کی علیحدگی کے اہم عوامل تھے۔ کسی قوم کے اندر مختلف ثقافتوں، زبانوں، اور امنگوں کو تسلیم کرنا اور ان کا احترام کرنا اتحاد کو فروغ دینے کے لیے لازمی ہے. یہ واقعہ سیاسی کوتاہ نظری اور آمرانہ طرز حکمرانی کے خطرات کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ 1970 کے انتخابی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنا ایک سنگین غلطی تھی جس سے جمہوری اصولوں اور مکالمے کے ذریعے بچا جا سکتا تھا۔
مزید برآں، اندرونی اختلافات کو بروقت حل نہ کرنے سے بیرونی عناصر کو فائدہ اٹھانے کا موقع ملتا ہے، جس سے قومی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگرچہ بنگلہ دیش ایک آزاد ملک کے طور پر آگے بڑھ چکا ہے، لیکن ڈھاکہ کے سقوط کی یاد آج بھی پاکستان میں گونجتی ہے۔ یہ لمحہ قوم سازی کے چیلنجوں اور قیادت کی ذمہ داریوں پر غور کرنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔
1971 کے بعد سے پاکستان نے دیگر چیلنجز کا سامنا کیا ہے، لیکن ڈھاکہ کے سبق آج بھی متعلقہ ہیں۔ اتحاد، شمولیت، اور انصاف ایک مضبوط قوم کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ 1971 کا المیہ صرف ایک کھوئے ہوئے موقع کی یاد دہانی نہیں بلکہ ایک مضبوط اور مساوی مستقبل کی تعمیر کے لیے ایک پکار ہے۔
سقوط ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا ایک المیہ تھا، جس نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کا قیام ہوا ۔ پاکستان کے لیے یہ گہرے غم اور غور و فکر کا وقت تھا اور حکمرانی، شمولیت، اور اتحاد کی اہمیت کو سمجھنے کا ایک اہم موڑ تھا۔ اگرچہ یہ نقصان ایک تکلیف دہ یادگار کے طور پر باقی ہے، لیکن یہ پاکستانی عوام کی ثابت قدمی کی علامت ہے اور اس بات کی یاد دہانی ہے کہ ایسے سانحات کو روکنے کے لیے تاریخ سے سبق سیکھنا کتنا ضروری ہے

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International