آنکھوں میں لئے درد کا طوفان کھڑی ہوں
اے عشق !ترے در پہ میں حیران کھڑی ہوں
ان تیز ہواؤں میں گھِرا میرا نشیمن
خوابوں کا جہاں لے کے ،میں ویران کھڑی ہوں
محشر میں مرے اشک گواہی مری دیں گے
دنیا کے خدا کا لئے احسان کھڑی ہوں
یہ زخم ہیں کیسے ، نہیں جن کا کوئی مرہم
چاہت کا لئے پھر بھی میں عنوان کھڑی ہوں
اک خواب کے تاوان میں آنکھوں کو گنوایا۔
بے روح ہوئی ہوں،یہاں بے جان کھڑی ہوں
یہ کیسی اذیت ہے ، کبھی کم ہی نہیں ہوتی
قربت میں لئے ہجر کا ، امکان کھڑی ہوں
اپنے تھے جو ہاتھوں میں لئے رہتے تھے خنجر
اک بھول تھی ، جس کا لئے ارمان کھڑی ہوں
خود سے ہی اگر میری شناسائی نہیں ہے
میں اپنے ہی گھر کیوں بھلا مہمان کھڑی ہوں
اس نے تو کبھی لوٹ کے آنا بھی نہیں تھا
پلکوں کو بچھائے وہیں نادان کھڑی ہوں
کیا آس تھی جس نے مری دنیا ہی بدل دی
ہے راہ عجب جس پہ میں حیران کھڑی ہوں
مجھے رستہ دیا ہوتا، مسافر تھی ترے در کی
میں عشق کا لے کر ترے وجدان کھڑی ہوں
اک وصل کا پل کوئی ، عطا ہو مرے مولا
صدیوں سے لئے ہجر کا سامان کھڑی ہوں
جو راستہ ہموار تھا ۔خود چھوڑ کے آئی
اب سامنے میرے ہے یہ ڈھلوان ،کھڑی ہوں
اے چارہ گر ! آدیکھ ، ترے دست ہنر سے
جھوٹے میں وفا کے لئے پیمان کھڑی ہوں