تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارٸین! علم کے معنی جاننا اور واقفیت حاصل کرنا ہے۔ماہرین تعلیم کے مطابق ”عرفان نفس اور تکمیل خودی “ سے انسان اوج کی بلندیوں تک پہنچ پاتا ہے۔گویا علم کی اہمیت اور افادیت مسلمہ ہے۔بقول شاعر:-
علم ایک سمندر ہے وہ بھی اتنا بسیط
اس میں تصور نہیں ہے کنارے کا
یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ علم بہت بڑی قوت نایاب ہے جو خریدی نہیں جا سکتی بلکہ علم پھیلانے سے یہ دولت بڑھتی ہے۔تاریخ کے دریچوں سے باد نسیم کے جھونکوں سے یہ پیام ملتا ہے کہ ”حضرت آدم علیہ السلام سے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک جتنے بھی انبیاء و رسل آۓ انہیں صحائف اور کتب عطا فرما کر علم کی قوت عطا فرمائی۔علم کی اہمیت ہر دور میں مسلمہ رہی تاہم دور حاضر کے انسان کو علم کی روشنی سے رہنماٸی بھی حاصل کرنا ہے۔نافع علم کی افادیت بہت زیادہ ہے اس سے نہ صرف انسان کا حال بہتر ہوتا ہے بلکہ مستقبل کی بہتری کا راز بھی پوشیدہ ہے۔علم سے محبت تو وقت کا سب سے بڑا تقاضا بھی ہے۔بقول شاعر:-
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب(اقبالؒ)
علم کی ترویج کے لیے تعلیمی ادارے اور دینی مدارس پوری طرح کوشاں ہیں۔نوجوان نسل چونکہ قیمتی سرمایہ اور اثاثہ ہے اس لیے علم کی دولت سے اس کی سرفرازی جزو لازم ہے۔کوٸی بھی قوم اور ملک اس وقت تک ترقی کی منزلیں طے نہیں کر پاتا جب تک افراد تعلیم یافتہ اور خواندہ نہ ہوں۔یہ بات تو اچھی طرح ہم پر عیاں ہے کہ علم کی روشنی سے انسان ماضی کا سبق سیکھتا ہے۔حال کے قصے ٬حالات سے آگاہی٬سماجی روابط میں بہتری٬اسلوب بیاں اور طرز گفتگو کی مہارت بھی تو علم سے حاصل ہوتی ہے۔علم کی دولت محنت اور تقسیم کرنے سے بڑھتی ہے۔رسمی تعلیم کے ساتھ ساتھ غیر رسمی تعلیم کا کردار بہت اہم ہے۔مطالعہ کتب کی روایت زندہ کرنے کی عہد حاضر میں بہت زیادہ ہے۔علم میں اضافہ اسی صورت ممکن ہے جب کتب ٬اخبارات٬جرائد اور رسالہ جات کا مطالعہ کیا جاۓ۔مطالعہ کے لیے حسن انتخاب ایسے خطوط پر کیا جاۓ جس سے معتبر کتب پڑھنا ممکن ہو۔سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے پلیٹ فارم سے جو مواد مطالعہ کے لیے دستیاب ہوتا ہے اس کا جائزہ لیا جاۓ۔ضعف مواد کے مطالعہ سے انسان کی شخصیت اور کردار متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔علم چونکہ انسان کے لیے مشعل ہے اس لیے اچھا مواد زیر مطالعہ رہنا ہی کامیابی کی راہیں ہموار کرتا ہے۔تعلیمی اداروں میں طلبہ کے لیے کتب خانے ہوتے ہیں۔اس سے استفادہ کرنے کے لیے طلبہ کو مواقع فراہم کرنا اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔قوم کے بچوں کو مطالعہ کے لیے کتب کے انتخاب میں بھی رہنماٸی کی ضرورت ہوتی ہے۔استاد بحیثیت روحانی باپ بہتر رہنمائی کر سکتا ہے۔امید کی جا سکتی ہے مطالعہ کی عادت کے فروغ پر توجہ دے کر طلبہ اپنا مستقبل روشن کر سکتے ہیں۔دینی مدارس میں بھی کتب خانے موجود ہوتے ہیں۔ان سے بھی استفادہ کیا جا سکتا ہے۔تاریخ کے دریچوں سے یہ بات بھی آشکار ہوتی ہے قدیم زمانے میں لوگ علم کی دولت حاصل کرنے کے لیے دور دراز کا سفر کرتے تھے اور کتب خانے بھی قاٸم کیے جاتے تھے۔انسان ان کتب خانوں کا رخ کرتے تھے اور علم کے موتیوں سے اپنے دامن بھر لیتے تھے۔زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی خدمات آج بھی اسی طرح عیاں ہے۔البیرونی٬ابن الہیثم ٬امام غزالی اور مشاہیر اسلام کے کارنامے فخر سے پڑھے جاتے ہیں۔علم طب ہو کہ علم جغرافیہ٬دنیا کے حالات ہوں کہ عظیم لوگوں کے کارنامے فخر سے زیر بحث لاۓ جاتے ہیں۔یہ علم کا ہی کمال ہے۔اللہ تعالٰی کی سب سے عظیم کتاب قرآن مجید جو مخزن علم ہے۔اس کے مطالعہ سے بھی علم میں اضافہ ہوتا ہے۔یہ کتاب انسانیت کی رہنمائی کے لیے مؤثر ترین ذریعہ ہے۔سیرت طیبہ کے درخشاں پہلو اور مشاہیر اسلام کے حالات زندگی اور ان کی قربانیوں کا احوال بھی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے۔معاشرے کے افراد بھی کتب خانوں سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔شہروں میں کتب خانے موجود ہوتے ہیں۔دیہی زندگی میں بھی مقامی افراد اپنی مدد آپ سے کتب خانے قائم کرتے ہیں۔جہاں سے علم کی دولت تقسیم ہوتی رہتی ہے۔مصنفین اور مؤلفین بھی اپنی کتب تحاٸف کے طور پر تقسیم کرتے رہتے ہیں۔یہ بہت خوبصورت روایت ہے۔مطالعہ کی اہمیت پر بہت کچھ اہل قلم لکھتے چلے آرہے ہیں اور سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔علم دینی ہو کہ دنیوی مطالعہ بہت ضروری ہے۔یہ روح کی غذا ہے۔وسعت مطالعہ سے ذہن کشادہ ہوتا ہے اور دماغ تازہ ۔اس ضمن میں کتاب دوستی کی روایت زندہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔جدیدیت کے شکار نوجوان اور ہر مکتبہ فکر کے افراد نے مطالعہ سے اس قدر دوری اختیار کر لی گویا مطالعہ کے لیے وقت ہی نہیں۔اس عادت کے خاتمہ اور ذوق مطالعہ کے احساس کو زندہ کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔وقت کی قدر کرتے فرصت کے لمحات مطالعہ کے لیے وقف کیے جائیں تو بہت اچھے اثرات سامنے آتے ہیں۔جو لوگ کتاب سے دوستی استوار کر لیتے ہیں وہ فسادات سے محفوظ رہتے ہیں۔شوق مطالعہ سے علم حاصل کرنے کی جستجو بڑھتی ہے۔طالب علم ہو کہ قلم کار اس کے لیے مطالعہ کتب و رساٸل بہت ضروری ہے۔اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں علم اور تحصیل علم کی بڑی فضیلت ہے اور بڑی اہمیت بھی ہے۔علم کی مثال تو اس چراغ کی ہے جو اندھیرے میں روشنی کرتا ہے۔علم کی اہمیت تو اس قدر دنیا کی تعمیروترقی کا انحصار علم پر ہے۔علم بہت بڑی قوت اور طاقت ہے۔انقلاب کی اساس علم اور تعلیم ہے۔مطالعہ کی وسعت سے انسان بے شمار فوائد حاصل کر پاتا ہے۔زندگی پر سکون اور بامقصد گزرتی ہے اور ضمیر کی آواز بآسانی سنی جا سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ عالم کی بڑی فضیلت ہے۔علم کی دولت سے مثبت اور منفی کے تصور سے واقفیت ہوتی ہے۔خود شناسی اور خدا شناسی بھی تو علم کی روشنی سے ہوتی ہے۔سائنس کی ترقی ہو کہ سماجی انقلاب٬ایٹم بم کی تباہ کاریوں کا قصہ ہو کہ انسان کا خلاٸی سفر علم ہی سے واقفیت ہوتی ہے۔پیارے رسول ؐ کا ارشاد مبارک ہے”علم سیکھنے سے ہی آتا ہے“(بخاری کتاب العلم باب العلم قبل القول والعمل ص 91)
عمل سے پہلے علم ضروری ہے۔علم کی قوت سے ایمان کی پختگی ٬سماجی اور معاشرتی ترقی٬معرفت کا حصول ٬عقل و شعور میں اضافہ٬بھی علم کے ذوق مطالعہ سے ہے۔عہد حاضر میں جدت پسندی کے لبادے میں لپٹی سماجی زندگی کے تمام پہلوؤں کے وسیع مطالعہ کی ضرورت ہے۔جو لوگ علم سے محبت کرتے اور اپنی زندگی سنوارتے ہیں وہ قیمتی ہیرے کی مانند ہوتے ہیں۔علم دوستی سے انسان قیمتی بن جاتا ہے۔بقول شاعر:-
علم والوں کو کبھی موت نہیں آتی
زندہ رہتے ہیں کتابوں میں حوالوں کی طرح
علم کی دولت سے حکمت و دانش کے موتی ملتے ہیں۔اور زندگی بسر کرنے اور دلوں پر حکمرانی کا راز بھی ہاتھ آتا ہے۔بقول شاعر:-
حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے
جہاں ملے اسے اپنا مال سمجھو
تحریر۔فخرالزمان سرحدی
پتہ۔گاؤں ڈِنگ ٬ڈاک خانہ ریحانہ
تحصیل و ضلع ہری پور
رابطہ۔ 03123377085