تحریر و تحقیق: سلیم خان
ہیوسٹن (ٹیکساس) امریکہ
محمد رفیع 24 دسمبر 1924 کو ضلع امرتسر کے کوٹلہ سلطان سنگھ نامی ایک قصبہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام حاجی ولی محمد اور والدہ کا نام اللّٰہ رکھی تھا۔ محمد رفیع کے دادا بڑے مذہبی قسم کے انسان تھے۔ وہ دن ہندوستان کی تاریخ کا ایک عظیم دن تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ آج کے دن پیدا ہونے والا بچہ ایک دن ساری دنیا میں اپنے نام کی دھوم مچا دے گا اور پوری کائنات اس کی آواز کے سحر میں کھو جائے گی۔ انہوں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم پہلے فیروز نظامی سے حاصل کی اور بعد میں استاد وحید خان سے باقاعدہ شرف تلمذ حاصل کیا۔ محمد رفیع نے اپنی آواز کی چالیس سالہ زندگی میں 34 زبانوں میں 30 ہزار سے زائد گیت گائے۔ دنیا کے کسی حصے میں ایسا گلوکار پیدا نہیں ہوا۔ وہ ہندوستان کے واحد گلوکار تھے جن کے گائے ہوئے مقبول گیتوں کا فیصد سب سے زیادہ رہا۔ ان کے فن کا دائرہ دھنک کی طرح رنگارنگ اور پرکشش تھا۔ اگر ان کے مقبول گیتوں ہی کا حوالہ دینا شروع کیا جائے تو ایک کتاب الگ سے تیار ہو سکتی ہے۔ محمد رفیع نے اپنے عہد کے تمام بڑے موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ بڑے بڑے فلم اسٹاروں پر ان کے گانے پکچرائز ہوئے۔ انڈین فلم انڈسٹری میں پلے بیک سنگر کے طور پر انہیں جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ سنہ 1967 میں انڈین حکومت نے انہیں پدم شری ایوارڈ دیا۔ سنہ 2001 میں انہیں بیسٹ سنگر آف دی ملینیم اور 2013 میں ایک پول میں گریٹیڈٹ وائس ان ہندی سنیما قرار دیا گیا۔ اسی طرح بی بی سی ایشین نیٹ ورک نے ایک دفعہ ووٹنگ کرائی تو اس میں محمد رفیع کے گانے، بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے، کو بالی وڈ کی تاریخ کا مقبول ترین گیت قرار دیا گیا تھا۔ 31 جولائی 1980 کو بمبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا۔ 1967 میں حکومتِ ہند کی طرف سے صدرِ جمہوریہ ڈاکٹر رادھا کرشنن نے محمد رفیع کو پدم شری کے اعزاز سے نوازا۔ محمد رفیع کو ان چھ گانوں پر بالی وڈ کا سب سے مقبول و معتبر فلم فئیر ایوارڈ ملا۔ 1960 میں “چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو”، فلم چودھویں کا چاند – 1962 میں “تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے، چشم بدور”, فلم سسرال – 1964 میں “چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے،” فلم دوستی – 1968 میں “بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے،” فلم سورج – 1976 میں “دل کے جھروکے سے تجھ کو،” فلم نیل کمل – 1978 میں “کیا ہوا تیرا وعدہ،” فلم ہم کسی سے کم نہیں۔
دلیپ کمار، دیو آنند، شمی کپور، راجندر کمار، ششی کپور، پردیپ کمار، راجکمار جیسے نامور ہیروز کی آواز کہے جانے والے محمد رفیع نے اپنے طویل کیرئیر میں تقریباً 700 فلموں کے لئے 26,000 سے زائد گانے گائے۔ خصوصاً شمی کپور اور دیو آنند کی فلموں کو جس آواز نے دوام بخشا وہ محمد رفیع ہی تھے۔ شمی کپور محمد رفیع کو اپنی آواز قرار دیتے تھے۔ انہوں نے محمد رفیع کے انتقال پر کف افسوس سے کہا تھا کہ مجھے لگتا ہے آج میری آواز چھین لی گئی ہے۔ موسیقی کی دنیا کا یہ روشن ستارہ 31 جولائی 1980 کو دل کا دورہ پڑنے سے اپنے لاتعداد چاہنے والوں کو سوگوار چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے چلا گیا۔ لیکن اپنی مدھر آواز کی بدولت ہمیشہ مداحوں کے دلوں میں زندہ رہے گا۔ انہوں نے بیشمار فلموں کے لئے لاتعداد گیت گائے۔ “کیا ہوا تیرا وعدہ”، “بہارو پھول برساؤ”، “لکھے جو خط تجھے”، “چرا لیا ہے تم نے جو دل کو”، “تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے”، “دل کے جھروکوں میں تجھ کو بٹھا کے”، “دلربا میں نے ترے پیار میں کیا کیا نہ کیا”، “زندگی بھر نہیں بھولے گی وہ برسات کی رات”، “بابل کی دعائیں لیتی جا”، “تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤ گے”، “نہ طوفاں سے کھیلو نہ ساحل سے کھیلو”، “میں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی”، “رہا گردشوں میں ہر دم میرے عشق کا ستارہ”، “تو ہندو بنے گا نہ مسلمان بنے گا”، “دامن میں داغ لگا بیٹھے”، “سہانی رات ڈھل چکی”، “تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے”، “میری کہانی بھولنے والے”، “چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے”، “تیری زلفوں سے جدائی تو نہیں مانگی تھی”، “او دییا کے رکھوالے”، “انصاف کا مندر ہے یہ”، “جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا”، “میرے محبوب تجھے میری محبت کی قسم”، “دو ستاروں کا زمیں پر ہے ملن آج کی رات”، “جان بہار حسن تیرا بیمثال ہے”، “حسن والے تیرا جواب نہیں”، “تو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا”، “یہ وعدہ کرو چاند کے سامنے”، “تیرا کام ہے جلنا پروانے”، “تیری دنیا سے دور چلے ہو کے مجبور”، “او دور کے مسافر ہم کو بھی ساتھ لے لے رے ہم رہ گئے اکیلے.’
بیشمار گیت ہیں مکمل اخبار محمد رفیع صاحب کے گیتوں سے بھرا جا سکتا ہے۔ موسیقی سے محبت کرنے والوں کے دلوں میں محمد رفیع ہمیشہ زندہ رہیں گے بلکہ ان کے نام سے موسیقی قائم رہے گی۔۔۔۔