تحریر : نیلم وحید راولپنڈی
ضلع سرگودھا میں پیدا ہونے والی معصوم شہر بانو کبھی ماں کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی اور التجا کر رہی تھی۔ “ماں میری جان خلاصی کروا دے! مجھے بچا لے! مجھے ظالموں کے حوالے مت کر! میں بے گناہ ہوں میں نے کچھ نہیں کیا۔”
مگر ماں بھی گاؤں کے فرسودہ رسم ورواج اور خاندانی روایات میں جکڑی ہوئی تھی۔ برسوں پہلے جب وہ بھی خاندانی دشمنی کا نشانہ بنی تھی اور اپنی حیثیت، شناخت اور خوشیاں کھو چکی تھی، بیٹی کے کرب سے بخوبی واقف تھی۔ گزشتہ تیئس سالوں سے چاہتے ہوئے بھی وہ ان اَن دیکھی زنجیروں سے خود کو آزاد نہیں کروا پائی تھی اور اب نہ ہی وہ شہر بانو کو خاندانی روایات کی بھینٹ چڑھنے سے روک سکتی تھی۔ شہر بانو کی ماں بے بس اور لاچار تھی اپنی بیٹی کی مدد کرنا خاندانی غیض و غضب کو آواز دینے کے مترادف تھا اور جمال احمد کے غصے کو للکارنا انکے لیے وبالِ جان ثابت ہو سکتا تھا۔
تو کبھی شہر بانو باپ کے قدموں میں اپنا دوپٹہ پھیلائے فریاد کر رہی تھی۔ “بابا مجھے یہ سزا مت دو! میں بے قصور ہوں! مجھے بچا لو۔”
مگر بابا کی آنکھوں پر بیٹے کی محبت کی ایسی پٹی بندھی ہوئی تھی کہ اسے شہر بانو کی التجائیں، فریاد اور سسکیاں نظر نہیں آرہی تھی یا اسکے بابا دیکھ کر بھی انجان بن رہے تھے۔
بدقسمتی سے جمال احمد شہر بانو کا بھائی اور دلاور خان کا قاتل تھا۔ طاقت کے نشے میں چور، نشے کی حالت میں دھت ہو کر وہ اپنے حواس کھو بیٹھا تھا اور صدیوں سے جاری زمین کے جھگڑے میں جمال احمد نے غصے اور سرکشی میں دلاور خان کو (جو کہ انکا خاندانی حریف تھا) گولیوں سے چھلنی کردیا تھا اور اسکے والدین سے انکا لخت جگر چھین لیا تھا۔ دلاور خان کی والدہ کا جگر پاش پاش ہو چکا تھا اور صدمہ سے انکا دماغی توازن کھو چکا تھا۔
دلاور خان کے والد نے انصاف مانگنے کا تقاضہ کیا اور پنچائیت بلالی تھی۔
جمال احمد قتل کرنے کے فوراً بعد فرار ہو چکا تھا جبکہ اسکے جرم کی پاداش اسکی معصوم بہن کو بھگتنی تھی۔
جرگے میں فریقین نے مطالبہ کیا، “خون کا بدلہ خون ہے۔”
جرع کے بعد جرگے کے سردار اس نتیجے پر پہنچے، “چونکہ قاتل فرار ہے لہٰذا خون بہا کے عوض مقتول کے باپ سے شہر بانو کی شادی کر دی جائے۔”
شہر بانو کے والد نے جرگے میں اپنی رضا مندی دے دی تھی کیونکہ وہ بھی اسی دقیانوسی سوچ کے مالک تھے کہ بیٹیاں پرایا دھن ہوتی ہیں جنہیں رخصت ہو کر پرائے گھر جانا ہوتا ہے جبکہ انکا قاتل اور عیاش پسند بیٹا انکے بڑھاپے کا واحد سہارا، انکی جائیداد کا اکلوتا وارث اور انکی نسل بڑھانے کا ذریعہ تھا یہی وجہ تھی کہ جمال احمد کے جرم کی سزا انکی معصوم اور کم سن بیٹی کو دی جا رہی تھی جبکہ شہر بانو کے والد کی آنکھوں میں ندامت تھی نہ ہی بیٹی پر ظلم ڈھانے کا پچھتاوا۔
شہر بانو، دلہن بنی بیٹھی اسی گہری سوچ میں گم تھی کہ پینسٹھ سالہ شوہر کے چلانے کی آواز نے اسے سہما دیا تھا۔ “چل اُٹھ لڑکی! پاؤں دبا میرے! ونی میں آئی ہوئی لڑکی آرام نہیں کرتی۔”
یہ روایت برسوں سے اس گاؤں میں چلی آرہی تھی اور کئی معصوم، کم سن اور بے قصور لڑکیوں کو اس ظلم کی پھینٹ چڑھا دیا جاتا تھا اور زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ بے زبان جانور کی طرح انکی زندگیوں کے فیصلے جرگے اور پنچائیت میں اپنے مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھ کر کیے جاتے تھے۔ کئ کم عمر لڑکیوں سے ان کے جینے کا حق چھین کر انہیں روایات کی پاسداری کرنے کیلئے مجبور کر دیا جاتا تھا۔ ظلم کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور اپنے باپ بھائیوں کی غلطیوں اور جرم کی سزا کا حقدار بہن، بیٹی کو سمجھا جاتا تھا۔