میں چھوٹی سی، ہنستی مسکراتی، پیاری، معصوم سی ایک روح،ایک معصوم سا بچہ جسے والدین کے ہوتے ہوئے بھی نہ تو ماں کی گود مل سکی نہ باپ کی پناہ. سیانے کہتے ہیں کہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اللہ پاک کے اس پیغام کے ساتھ دنیا میں قدم رنجہ فرماتا ہے کہ ابھی اللہ پاک اپنے بندوں سے مایوس نہیں ہے کیا واقعی میں ہی ایسا ہے؟ مجھے تو ایسا کبھی نہیں لگا ، مجھا لگا کہ میں کوئی کالے پانی کی سزا بھگتنے کے لیے اس دنیا میں بھیج دی گءی تھی جی ہاں مجھے ایسا ہی لگا زندگی میرے لیے سانسیں بند کرتا ہوا ایک بند پنجرہ تھا مجھے نہیں پتا کہ مجھے اس دنیا میں لانے والوں کو کیا مسءلہ تھا کوی غم. رنجش، کوئ صدمہ، کوی ذہنی خلش، کوی ذہنی اور دماغی پیچیدگی یا بیماری کوی اونچ نیچ یا ادلے بدلے کی قبیح رسم جسے کی ادای میں دونوں فریقین نے ہی کوی کمی نہ چھوڑی اور میرا منحنی سا وجود میرے اپنوں ہی کے جبر و ستم کا شکار ہو کے سسک سسک کے ختم ہو گیا کوی ایک زخم ہو تو دکھاوں کوی ایک ستم ہو تو ذکر کروں میرا باپ اکیسویں صدی کے پہلے سال ہی پڑھای کے سلسلے میں یو کے چلا آیااب یہ تو اللہ جانتا ہے یا وہ خود کہ اس نے کیا پڑھای لکھای کی یا نہیں کی اور تعلیم نے اس کے دماغ کی کتنی کھڑ کیاں کھولیں. یا اس تعلیمی سیشن نے اسے کہاں تک انسانیت کا چولا پہنایا لیکن وہ کہتے ہیں ناں کہ تربیت کے بغیر تعلیمی ڈگریاں محض کاغذ کے بے جان اور بے مول پرزے ہی کی مانند ہیں آپ معاشرے میں اپنی تعلیمی اسناد کے بل بوتے پہ اچھی جاب ضرور حاصل کر سکتے ہیں مگر اچھے انسان نہیں بن سکتے. میرا اپنا ذاتی خیال بھی کچھ ایسا ہی ہے.سچ ملک خداداد میں حیثیت، عہدے اور رتبے کی بندر بانٹ نے عام لوگوں کو اتنا خوفزدہ، اتنا پشیمان کر دیا کہ انھیں ملک میں اپنا مستقبل انتہائی خوفناک، انتہائی غیر محفوظ محسوس ہوتا اور وہ اپنی مٹی، اپنی جنم بھومی، اپنی جاے پیدائش اپنے پیارے ملک اور اپنے پیاروں کو راضی برضا چھوڑنے پہ آمادہ ہو جاتے ہیں ہاے یہ تیسری دنیا کی تیسرے درجے کی محروم عوام، کبھی غور تو فرمائیے گا انسانی بھوک کو مٹانے کے لیے کیا کیا راستے نکالے گیے، کتنے ہتھکنڈے استعمال ہوے، انسانی اسمگلنگ جیسے مکروہ کاروبار کو باقاعدہ طور پہ منظم کیا گیا اور اس مکروہ دھندے میں نفع کے مارجن کو بڑھانے کے لیے کتنی ہی کشتیاں یونان میں سمندر برد ہو گییں اور کتنے ہی خاندانوں کے چشم و چراغ سمندری مچھلیوں کی خوراک بن گیے کبھی غور فرمائیے گا کتنی ماوں کے زیورات بکے کتنے خاندانوں کی زرعی املاک اونے پونے بیج کے بیس بیس، تیس تیس اور چالیس چالیس لاکھ ان منحوس ایجنٹوں کو دے کے بیرون ملک جا کے بسنے والے جب انسانی سمگلنگ کا شکار ہو کے بیچ راہ میں ہی جان کی بازی ہار جاتے ہیں تو اہل خانہ اور اہل وطن پہ کیا بیتتی ہو گی، ہاں حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والوں کو رہنے دیجیے قانون تو اندھا ہی ہوتا ہے.
وہ مصطفیٰ زیدی کا شعر ہے ناں کہ
میں کس کے ہاتھوں پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوے ہیں دستانے
تو میں ایک معصوم فرشتہ، چھوٹی سی بچی جو پیدا ہونے سے پہلے ہی ماں اور باپ دونوں کی نفرت کا شکار ہو چکی تھی. باپ تو میری جان کو ہی آ گیا لیکن کمی ماں نے بھی نہ کی میری انگریز ماں نے مجھے پیٹ میں ضرور رکھا مجھے جنم بھی دیا لیکن سلوک اس نے دشمنوں والا ہی کیا کبھی تھپڑ، کبھی گھونسے، کبھی لاتیں کبھی صلواتیں، کبھی میرے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو سگریٹ اور استری سے داغ دینا اور ایک دن تو ماں نے حد ہی کر دی مجھے سویمننگ پول میں ڈبو کے جان سے مارنے کی کوشش کی میں کسی طرح کمیونٹی سروس کی مدد سے ماں سے چھٹکارا پا کے باپ کےپاس پہنچ گءی یعنی اپنی موت کے پروانے پہ دستخط میں نے اپنے ہی ہاتھوں سے کیے.
زمانہ چال اپنی چل چکا تھا
کوئی مرنے سے پہلے مر چکا چکا تھا
بہت ہی قرض تھا معصوم جاں پہ
وہ سب سود و زیاں کو بھر چکا تھا
تو میرے باپ نے نیشنیلٹی لینے کے لیے میری آیرش ماں سے جو لالچ کی بنا پہ شادی کی تھی وہ بالآخر طلاق پہ ختم ہو گءی، باپ نے فوراً دوسری شادی رچا لی میں بدنصیب تو اپنی سگی ماں کے عتاب کا شکار سوتیلی ماں کے ظلم و ستم سے کیسے بچ پاتی مجھے لوگوں سے ملنا ملانا، دوستیاں کرنا بہت پسند تھا میں ایک ہنستا مسکراتا چہرہ تھی، اصل میں میں نے تمام غم اپنے مسکراتے ہوے چہرے کے پیچھے چھپا لیے تھے. کیا کرتی اتنے رونے تھے کس کس کو روتی اپنی ماں کی نفرت کا غم سوتیلی ماں کے جلن اور حسد کا غم وہ گھر کے سارے کاموں بشمول شیر خوار بچوں کے پیمپرز تک مجھ سے بدلواتی اور کبھی میں میں چوں چراں کرتی تو وہ مجھے سیڑھیوں سے نیچے دھکا دے کے میرے باپ کو کہتی کہ سارہ گر پڑی ہے مجھے سچ بولنے کی اجازت نہ تھی نہ ہی کسی سے بات کرنے کی آزادی تھی مجھ سے میری استانی، میری ہم جماعتوں میرے ہمسایوں نے متعدد بار میری چوٹوں اور چہرے پہ پڑنے والے نیلوں کے بارے میں پوچھا میں اپنے والدین کی ہدایات کی روشنی میں بات کو گول کر جاتی تھی
وہ ہروین شاکر کا ایک مصرعہ ہے ناں کہ آنکھ میں پڑ گیا کچھ کہہ کے یہ ٹالا ہوگا
میرے ظالم والدین کبھی سکول میں ڈالتے کبھی نکالتے کبھی سر پہ حجاب کبھی چہرے پہ نقاب. خیر مار کھاتے کھاتے اپنی ہڈیاں تڑواتے تڑواتے میں دس سال کی ہو گءی میری ٹانگوں، بازوؤں اور پیٹ پہ استری اور سگریٹ کے جلے ہوے داغ، میرا ٹوٹا ہوا سپاین، میرا پکچا ہوا فرنٹل لوب، میرے
ٹوٹے ہوے ہاتھ پیر، اور اس دن تو حد ہی ہو گءی جب میرے باپ نے مجھ بے گناہی کو ڈنڈے اور بیٹ مارمار کے مجھے مار ہی دیا اور انھوں نے مجھے مارنے کے فوراً بعد ملک ہی چھوڑ دیا اور اپنے وطن پہنچ کر پولیس کو اصل واقعہ کی اطلاع دی باپ کو چالیس سال، سوتیلی ماں کو تینتیس سال چچا کو سولہ سال قید دے کر کیا گھسیاہٹ مارا معاشرہ اور نکمے حکمران میری جان کو وآپس لا سکتے ہیں؟ میں تو اپنوں کے تیر ستم کا شکار ہو کے دس سال کی عمر میں ہی جان سے گءی، میں ایک چلبلی سی، شرارتی سی، ہنسنے کھیلنے والی بچی جسے اس کے اپنوں نے نشانہ عبرت بنایا اور نہ ہی اساتذۂ نہ ہی ہمساے نہ ہی سوشل سروسز والے مجھے بچا سکے،
اور آخر میں اپنی گھسیاہٹ مٹانے کے لیے تین افراد کو لمبی لمبی سزائیں دے کر بری الذمہ ہو گیے. ارے پوری دنیا میں بے آسرا اور بے سہارا بچوں کے لیے پناہ گاہیں ہوتی ہیں مجھے بھی کسی ایسی ہی پناہ گاہ میں آسرا دے دیتے تو میں اپنے زینی طور پہ دیوالیہ والدین کی سفاکی کا نشانہ تو نہ بنتی ناں.
تمام اہل دنیا کو ذرا اب سوچنا ہو گا
مصیبت کتنی حاوی ہے، مصیبت کیسے ٹلنی ہے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل
naureendoctorpunnam@gmail.com