ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہباز شریف کے حالیہ تعلیمی وژن کے تحت دانش یونیورسٹی کا قیام ایک انقلابی قدم ہے جو ملک کی ترقی و خوشحالی میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ جدید ترین اپلائیڈ سائنسز، آئی ٹی، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی تعلیم کے فروغ سے نوجوانوں کو معیاری تعلیم اور ترقی کے مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کی جڑیں سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس عدالتی فیصلے میں موجود ہیں کہ 190 ملین پاؤنڈ کی وہ رقم جو غیر قانونی طور پر کسی اور اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی تھی اب قومی خزانے میں واپس لا کر عوامی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ یہ اقدام تعلیمی میدان میں ایک نئے باب کا آغاز ہے جو پاکستان کے تعلیمی معیار کو بین الاقوامی سطح پر بلند کرے گا۔
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی ترویج اور سائنسی تحقیق کا فروغ ہمیشہ سے ایک چیلنج رہا ہے۔ 1947 سے لے کر اب تک کئی حکومتوں نے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے قیام کی کوششیں کیں، لیکن مالی وسائل اور پالیسیوں میں عدم استحکام کے باعث یہ خواب مکمل طور پر شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ ماضی میں قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے تعلیم کو قومی ترقی کا بنیادی ستون قرار دیا تھا۔ 1960 کی دہائی میں انجینئرنگ اور میڈیکل کے ادارے قائم کیے گئے، جبکہ 1990 کی دہائی میں آئی ٹی اور کمپیوٹر سائنس کے فروغ کے لیے کئی نئے تعلیمی ادارے متعارف کروائے گئے۔ دانش یونیورسٹی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو جدید ٹیکنالوجی اور سائنسی علوم میں پاکستان کو خود کفیل بنانے کے لیے قائم کی جا رہی ہے۔
یہ یونیورسٹی نہ صرف اپلائیڈ سائنسز اور آئی ٹی کے شعبے میں جدید تعلیم فراہم کرے گی بلکہ ملک کے کمزور طبقات کو بھی ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کرے گی۔ بالخصوص گلگت بلتستان اور چترال، کالاش، بلوچستان، کراچی کے پسماندہ علاقے اور آزاد کشمیر میں دانش اسکولوں کا قیام بھی ایک مثبت پیش رفت ہے جو ان علاقوں کے طلباء کو معیاری تعلیم فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ دانش یونیورسٹی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے علاوہ دیگر اہم شعبوں جیسے کہ قانون، اردو اور پاکستان کی علاقائی زبانوں میں بھی پی ایچ ڈی پروگرام شروع کیے جائیں۔ قانون کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم کا فروغ نہ صرف ایک منصفانہ اور مضبوط عدالتی نظام کی بنیاد رکھے گا بلکہ ملک میں انصاف کی جلد فراہمی میں بھی مدد دے گا۔ اسی طرح اردو اور علاقائی زبانوں کے فروغ سے قومی یکجہتی کو تقویت ملے گی اور علمی و ادبی تحقیق کے نئے دروازے کھلیں گے۔
دانش یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی لیول پر قانون، اردو اور دیگر علاقائی زبانوں کے شعبے میں داخلے کھولے جائیں تاکہ تعلیمی میدان میں ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔
پسماندہ علاقوں چترال، کالاش، گلگت بلتستان اور بلوچستان کے طلباء کو اسکالرشپ فراہم کی جائیں تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم کے مواقع سے محروم نہ رہیں۔
عالمی معیار کے اساتذہ اور تعلیمی ماہرین کی خدمات حاصل کی جائیں تاکہ طلباء کو جدید تحقیق کے اصولوں سے روشناس کرایا جا سکے۔
جدید تحقیق کے فروغ کے لیے خصوصی فنڈ مختص کیے جائیں تاکہ طلباء اور محققین جدید ترین مسائل پر کام کر سکیں۔
دانش یونیورسٹی میں مختلف علاقائی زبانوں کے تحقیقی مراکز قائم کیے جائیں تاکہ پاکستان کی لسانی و ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھا جا سکے۔
وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہباز شریف کا یہ تعلیمی منصوبہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں ایک نئی روح پھونکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دانش یونیورسٹی کا قیام نہ صرف جدید سائنسی علوم کے فروغ میں مددگار ہوگا بلکہ اگر اس میں قانون، اردو اور علاقائی زبانوں کے پی ایچ ڈی پروگرامز شامل کیے جائیں تو یہ قومی ترقی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس منصوبے کو مزید وسعت دے کر تعلیمی انقلاب کی بنیاد رکھے، تاکہ پاکستان کا تعلیمی نظام دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہو سکے۔
*ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق خیبرپختونخوا چترال سے ہے آپ حالات حاضرہ، علم ادب، لسانیات اور تحقیق و تنقیدی موضوعات پر لکھتے ہیں ان سے اس ای میل rachitrali@gmail.com اور واٹس ایپ نمبر 03365114595 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔