March 15, 2025
تازہ ترین / Latest
,Articles,Snippets / Thursday, March 13th, 2025

قصہ موسی علیہ السلام اور فرعون،درس عبرت


allahnawazk012@gmail.com

تحریر:اللہ نوازخان

قران حکمت میں اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کا ذکرفرمایا ہے۔یہ واضح رہے کہ قرآن انسانوں کے لیے راہ ہدایت ہے اور قیامت تک رہنمائی ہوتی رہے گی۔واقعہ فرعون بھی انسانیت کو درس دینے کے لیے بیان کیا گیا ہے۔موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائےاور قرآن میں فرعون کاواقعہ پڑھا جائے تو معلوم ہوگا کہ کتنی بھی سخت مشکلات کیوں نہ ہوں،اللہ تعالی کوٸ نہ کوئ راستہ نکال ہی دیتا ہے۔فرعون اتنا سرکش تھاکہ اس نے دعوی کر دیا تھا کہ،”انا ربکم الاعلی”ا(ترجمہ)میں رب اعلی ہوں۔اس نے رب ہونے کا دعوی کیا تھا،کیونکہ اس کو اللہ تعالی نے حکومت وطاقت عطا کی تھی۔فرعون اس طاقت اور حکومت پر گھمنڈاور تکبر کرنے لگا،ساتھ ہی اس بات کا بھی اعلان کر دیاکہ مجھے رب سمجھ کر پوجا جائے۔قرآن حکیم کی ایک آیت ہے،(ترجمہ)”ط۔س۔م۔یہ کتاب مبین کی کچھ آیات ہیں۔ہم موسی علیہ السلام اور فرعون کا کچھ حال ٹھیک ٹھیک تمہیں سناتے ہیں،ایسے لوگوں کہ فائدے کے لیے جو ایمان لائیں”(القصص۔1_3)اس آیت سے یہ علم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ اس لیے بتایا کہ لوگ اس واقعہ سے فائدہ اٹھائیں اور ایمان لےآٸیں۔موسی علیہ السلام جب پیدا ہوئے تو مصر کے حالات بہت ہی خراب تھے۔ظلم وجبر کا دور دورہ تھا۔بنیادی انسانی حقوق تو چھوڑیے،فرعون اور اس کی قوم نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا۔غلاموں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا تھا۔تشدد کے ساتھ خوراک بھی نہیں دی جاتی تھی،اتنی سی خوراک دی جاتی تھی کہ ان کےجسموں کے ساتھ روح کا رشتہ برقرار رہے۔ان حالات کی قرآن نے منظر کشی کی ہے۔(ترجمہ)واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔ان میں سے ایک گروہ کو ذلیل کرتا تھا،اس کے لڑکوں کو قتل کرتا اور اس کی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا تھا،فی الواقع وہ مفسد لوگوں میں سے تھا“(سورة۔القصص۔4).لڑکوں کو قتل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کے نجومیوں نے بتا دیا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک بچہ پیدا ہوگا جو تمہارے زوال کا سبب بنے گا۔اس پیش گوئی سے گھبرا کر فرعون نے بنی اسرائیل کے نوزاٸیدہ بچوں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔وہ فسادی ہونے کے ساتھ خوفزدہ بھی تھا،کیونکہ وہ یہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ جھوٹا خدائی دعوی کر رہا ہے۔اس جھوٹے دعوے کو برقرار رکھنے کے لیےایسی حرکتیں کرتا تھا جس سے انسانیت بھی شرما جائے۔اس کی سرکشی بہت ہی بڑھ چکی تھی۔اس ماحول میں موسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔فرعون کی متعین کی ہوئی خواتین فورس ہر گھر میں چیکنگ کے لیے جاتی رہتی تھیں کہ کسی کے گھر میں اگر لڑکا پیدا ہو گیا ہے تو اس کو بعد از پیدائش فوری طور پر قتل کر دیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ رہنے دیا جائے۔لیکن اللہ تعالی تو ہر چیز پر قادر ہے،اس نے موسی علیہ السلام کو پیدا کیا۔قران حکیم میں ہے،(ترجمہ)”ہم نے موسی علیہ السلام کی ماں کو اشارہ کیا کہ اس کو دودھ پلا،پھر جب تجھےاس کی جان کو خطرہ ہوتو اسے دریا میں ڈال دےاور کچھ خوف اور غم نہ کر،ہم اس سے تیرے پاس واپس لےآٸیں گے”(سورة القصص۔7)ظاہر بات ہے حالات و واقعات کی روشنی کے حساب سے موسی علیہ السلام کی والدہ کو خوفزدہ ہونا تھا کہ کہیں فرعون کے سپاہی میرے اس نوزاٸیدہ بچے کو ہلاک نہ کر دیں۔اللہ تعالی موسی علیہ السلام کی والدہ کو تسلی دے رہا ہے کہ اس بچے کودودھ پلا دے،اگر تجھے کچھ خطرہ محسوس ہو تو اس کودریا میں ڈال دے۔قران حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے،(ترجمہ)”اے موسی!ہم نے پھر ایک مرتبہ تجھ پر احسان کیا۔یاد کرو وہ وقت جب کہ ہم نے تیری ماں کو اشارہ کیا،ایسا اشارہ جو وحی کے ذریعے کیا جاتا ہے،کہ اس بچے کو صندوق میں رکھ اور صندوق کو دریا میں چھوڑ دے۔دریا اسے ساحل پر پھینک دے گا اور اسےمیرا دشمن اور بچے کا دشمن اٹھالے گا۔ہم نے اپنی طرف سے تجھ پر محبت طاری کر دی اور ایسا انتظام کیا کہ میری نگرانی میں پالا جائے“(سورة طہ۔37.38)موسی علیہ السلام کوایک بکس میں بندکرکےدریا میں ڈال دیا گیا تھا۔یوں دریا میں موسی علیہ السلام کو نکال کر فرعون کےمحل میں پہنچا دیا جاتا ہے۔
تحریر کی طوالت کے پیش نظرمختصرا بیان کیا جاتا ہے کہ موسی علیہ السلام جوان ہو کرپیغمبرکی صورت میں فرعون کے دربار میں آتے ہیں اور اس کوپیغام حق سناتے ہیں۔فرعون اور اس کے درباری موسی علیہ السلام کومعمولی انسان سمجھ کر اس کی تکذیب کرتے ہیں اور دعوی کر دیتے ہیں کہ موسی علیہ السلام جادوگر ہیں۔موسی علیہ السلام کا توڑ کرنے کے لیے ملک بھرسے جادوگروں کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔مقابلے کادن مقرر کیا جاتا ہے۔مقابلے کے دن جادوگروں نے زمین پر رسیاں پھینکیں تو وہ سانپ بن گئے۔اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کو وحی کی کہ اپنے ہاتھ میں پکڑا ہواعصا زمین پر پھینک دے۔قرآن اس واقعے کے یوں وضاحت کرتا ہے،(ترجمہ)”ہم نے موسی علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپناعصا زمین پر ڈال دو،وہ عصا زمین پر گرتے ہی سب سے بڑااژدھابن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگلنے لگا۔حق ظاہر ہو چکا تھا،چنانچہ وہ جادوگر سجدے میں گرکرحضرت موسی اور حضرت ہارون علیہ السلام کے پروردگار پر ایمان لےآۓ”(الاعراف117 تا122).فرعون کو سخت غصہ آیا کہ اس کو شکست ہو گئی۔فرعون کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ حقیقت کیا ہے؟ لیکن اپنی ضد اور لالچ میں ڈوب کرموسی علیہ السلام سے مزید دشمنی کرنے لگا۔مختصر وضاحت کی جاتی ہے کہ آخر کار موسی علیہ السلام کا پیچھا کرتے ہوئے اپنی فوج سمیت دریا پر پہنچ جاتا ہے۔اللہ تعالی موسی علیہ السلام کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ دریاکے درمیان سےگزر جائے۔دریا کے درمیان راستہ بن جاتا ہے اور موسی علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ دوسرے کنارے باآسانی پہنچ جاتے ہیں۔فرعون دریا میں اترتا ہے تو اللہ کے حکم سے دریا مل جاتا ہے اور یوں فرعون اپنی فوج سمیت دریا میں غرق ہو جاتا ہے۔قرآن کریم نے اس واقعے کی یوں عکاسی کی ہے،(ترجمہ)اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سےپارکر دیا،پھر ان کے پیچھے پیچھے فرعون اپنے لشکر کے ساتھ ظلم اور زیادتی کے ارادے سے چلا،یہاں تک کہ وہ ڈوبنے لگا تو کہنے لگا،میں ایمان لاتا ہوں کہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں،اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں مسلمانوں سے ہوں“(یونس۔,90).قرآن پاک یہاں ایک اور وضاحت بھی کرتا ہے کہ انسان کے پاس توبہ کرنے کا وقت ہوتا ہے،مگر ایک ایسا وقت بھی آجاتا ہے جب اس کی مہلت ختم ہو جاتی ہے۔موسی علیہ السلام اور فرعون کے قصے کوقرآن حکیم میں بہت ہی وضاحت سے بیان فرمایاگیاہے،یہاں مختصرا بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تحریر مختصر رہے(اگر کوئی یہ واقعہ وضاحت سے پڑھنا چاہے تو قران کریم سے پڑھ سکتا ہے)۔
قرآن میں بیان کیا گیا یہ قصہ انسانوں کی رہنمائی کے لیے بیان کیا گیا ہے۔فرعون ایک ظالم قوت کا نام ہے،جو ہر دور میں تقریبا موجود رہتی ہے۔حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی ابو جہل کو فرعون کہا تھا۔اس واقعے سے یہ درس بھی ملتا ہےکہ ہمیشہ بادشاہی اور خدائی اللہ کے لیے ہے اور وہی ہمیشہ رہنے والا ہے۔کوئی جتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو،بے پناہ لشکررکھتا ہو،خواہ کتنے ہی بڑے بڑے دعوے کیوں نہ کر رہا ہو،اس نے فنا ہی ہونا ہے۔اللہ تعالی نے آزمائش کے لیے انسانوں کو زمین پر بھیجا ہے۔فرعون اپنے زمانے کا بہت ہی طاقتور بادشاہ تھا،وہ بنی اسرائیلوں پرظلم کے پہاڑ توڑتاتھا۔امت مسلمہ کے حالات آج کل کے زمانے میں بہت ہی بگڑے ہوئے ہیں۔عالمی طاغوت ٹیکنالوجی میں اتنا بڑھ چکا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ سب کچھ کر سکتا ہے۔قرآن کے اس واقعے سے درس لینا چاہیے کہ اللہ تعالی ہی سب سے اعلی اور برتر ہے۔ظالم کا مقابلہ ڈٹ کر کرنا چاہیے۔معاشرے میں بہت ہی بگاڑ پیدا ہو چکا ہے۔انسانی حقوق کی پامالیاں کی جا رہی ہیں۔فلسطین،کشمیر اور کئی اسلامی ممالک میں انسانی نسل کشی کی جا رہی ہے اور انسانوں کوگاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا ہے۔ہمیں بحیثیت مسلمان ظلم کے خلاف اٹھنا چاہیے اور جدوجہد کرنی چاہیے جب تک اللہ کا نظام قاٸم نہ ہوجاۓ۔کم از کم کچھ علاقوں میں تو اللہ کا نظام قائم ہو سکتا ہے۔موسی علیہ السلام اور فرعون کا واقعہ یہ بتا رہا ہے کہ صرف جذبہ ہونا چاہیے اللہ تعالی کی مدد پہنچ ہی آتی ہے۔اللہ تعالی ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جہاں یقین بھی نہیں ہوتا۔دریانے موسی علیہ السلام کوراستہ دے دیا تھا اور فرعون کو غرق کر دیا تھا۔فرعون کو اپنی طاقت پر ناز تھا اور موسی علیہ السلام کو اللہ کی طاقت پر بھروسہ اور ناز تھا۔ہمیں ظلم کے خلاف جدوجہد کرنی چاہیے۔اللہ تعالی جدوجہد کو ضائع نہیں کرتا،اس کا اجر لازما ملتا ہے۔

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International