May 19, 2025
تازہ ترین / Latest
,Articles / Sunday, May 18th, 2025

ہمیں سوچنا ہوگااورعمل بھی کرناہوگا


rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

دوسرے ممالک خلا کو تسخیر کر رہے ہیں,مریخ پر بستیاں آباد کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔جدید ٹیکنالوجی سے کاٸنات کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندیاں کی جا رہی ہیں،لیکن ہمارا حال عجیب ہے۔ہم ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ ہمارے لیے صدارتی نظام بہترین ہے یا پارلیمانی نظام؟ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اقتدار کس طرح حاصل کیا جائے اور اس کے بعد اقتدار کو دوام کس طرح حاصل ہو؟دنیا میں نئے تجربات ہو رہے ہیں کہ زندگی کو کس طرح آسان بنایا جائے،ہمارے یہاں یہ پریشانی ہوتی ہے کہ دودھ میں کتنا پانی ملایا جائے تاکہ معلوم نہ ہو کہ دودھ میں پانی ملا ہوا ہے،ہمارے ہاں یہ پریشانی ہوتی ہے کہ مخالف کی بےعزتی کس طرح کی جائے اور اس کے خلاف تھانے میں ایف آئی ار کا اندراج کس طریقے سے کیا جائے؟دنیا میں جدید قسم کے جہاز،راکٹ اور مشینری بنائی جا رہی ہے اور ہمارے ہاں اس بات پر غور و فکر کیا جاتا ہے کہ مخالف سیاست دان کو کس طرح سوشل میڈیا یا عام حلقوں میں ذلیل کیا جائے۔دنیا میں دوائیوں پرریسرچز کی جا رہی ہیں اوربیماریوں کو ختم یا کنٹرول کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں،اس کے برعکس ہمارے ہاں ٹک ٹاک اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ کے ذریعے لائک اور کمنٹ حاصل کرناکامیابی سمجھا جا رہا ہے۔رونارویا جاتا ہے کہ ہم ترقی یافتہ کیوں نہیں بن سکتے؟دوسرے اس بات پہ غور و فکر کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ستاروں کو کس طرح قابو کر کے ان سے فائدہ اٹھایا جائے،ہمارے ہاں اس بات پر تحقیق کی جاتی ہے کہ سب سے بہترین نشہ کون سا ہوتا ہے؟نشہ دوسروں تک کس طرح پہنچایا جائے؟نشے میں کیا چیز ملا کر اس کو زیادہ طاقتور کیا جا سکتا ہے۔تعلیمی نظام رٹے پر چل رہا ہے,ہر ایک اپنی استطاعت کے مطابق کرپشن کر رہا ہے۔اپنے پاؤ گوشت کے لیے دوسروں کی بھینس ذبح کرنے کے چکر میں ہے۔سیاست دان اس بات کے لیے متفکر ہیں کہ مخالف سیاست دان کوکس طرح سیاسی میدان سے آؤٹ کیا جائے۔پاکستان کے حالات اس نہچ پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی یہاں رہنے کو تیار نہیں۔ہر فرد یہاں سے بھاگنے کے چکر میں ہے۔ان سب کا ذمہ دار کون ہے؟ہمارے لیے کہنا یہ بہت ہی آسان ہے کہ یہود وہنود ہمیں تباہ کرنے کے چکر میں ہیں۔اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ وہ ہمیں تباہ و برباد کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں،ان کا مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں خصوصا پاکستانیوں کو غلام بنا لیا جائے،تو سوال اٹھتا ہے کہ وہ کتنے کامیاب ہو چکے ہیں؟اگر ان کو اس بات کا ذمہ دار قرار دیا جائے تو سوال اٹھتا ہے کہ ان کو کامیاب کرانے میں مدد کس نے کی ہے؟یہ بات سوچنے کی ہے کہ پاکستان میں دکاندار،اساتذہ،وکلا،صحافی اور بے شمار دوسرے پیشوں والے اپنا اپنا کام کتنی ایمانداری سے کر رہے ہیں؟ہمارا یہ وطیرہ بن چکا ہے کہ ہم اپنی خامیوں کا ذمہ دار دوسروں کو گردانتے ہیں۔اگر دوسرے ممالک ہمارے دشمن ہیں تو ہم بھی ان کے دشمن ہیں،ہمیں بھی ان کو منہ توڑ جواب دینا چاہیے لیکن ایک بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم بھی اپنا کام ایمانداری سے کریں۔یہ نہ ہو کہ ہم اپنی کوتاہیوں کا ذمہ دار دوسروں کوگردان کربری الذمہ ہو جائیں بلکہ ہمیں بھی اپنی کوتاہیوں پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
ترقی یافتہ افراد کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ فرقوں اور ذاتوں میں بٹنے کی بجائے ایک قوم کی حیثیت اختیار کرتے ہیں،وہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اجتماعی مفادات کے بارے میں سوچتے ہیں۔ہمارے یہاں الٹا ہوتا ہے سب سے پہلے اپنی ذات اور برادری کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ذات برادری سے اٹھ کر فرقے اور زبان کی بھی حیثیت ہمارے ہاں کافی مضبوط ہے۔اس کے باوجود ہمارا شکوہ ہوتا ہے کہ ہمیں غیر تباہ و برباد کر رہے ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے پاس ایک لاریب کتاب قرآن حکیم کی صورت میں موجود ہے،ضرورت تھی کہ قرآن سے رہنماٸ لیتے،مگر ہم قرآن شریف کی تلاوت سے مردوں کو ثواب بخشنے کا کام لیتے ہیں۔قرآن سے رہنماٸ لی جاتی کہ دین و دنیا میں ترقی کس طرح حاصل کی جا سکتی ہےلیکن قرآن کو ہم کپڑوں میں احترام سے لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں۔اسلام تحقیق کا حکم دیتا ہے،اسلام حکم دیتا ہے کہ قرآن کو بار بار پڑھ کر اس کو سمجھا جائے۔کائنات میں غور و فکر کیا جائے۔ایک حدیث کےمطابق طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ کھجور کے باغ میں گزراتوآپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دیکھا کہ کچھ لوگ نر کھجور کا گابھا لے کر مادہ میں ڈالتے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پوچھا”یہ لوگ کیا کر رہے ہیں“لوگوں نے عرض کی”نر کا گابھا مادہ میں ڈالتے ہیں“آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا”میں نہیں سمجھتا کہ اس سے فائدہ ہوگا“یہ خبر جب ان صحابہ کرام تک پہنچی تو انہوں نے ایسا کرنا چھوڑ دیالیکن اس سے درختوں میں پھل کم آۓ،پھریہ بات حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک پہنچی,تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا”یہ میرا گمان تھا،اگر اس میں کوئی فائدہ ہے تو اسے کرو،میں تم ہی جیسا ایک آدمی ہوں،گمان کبھی غلط بھی ہوتا ہے اور کبھی صحیح،لیکن جو میں تم سےکہوں کہ اللہ تعالی نے ایسا فرمایا ہے(تو وہ غلط نہیں ہو سکتا)کیونکہ میں اللہ تعالی پر ہرگز جھوٹ نہیں بولوں گا“(صحیح مسلم/الفضائل38,مسند احمد 1/162).یہ حدیث واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تجربوں کو پسند فرماتے تھے,اب اگر اس حدیث کو تجرباتی زرعی تحقیق/ سائنس کی بنیاد کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔قرآن و حدیث سے ہم جتنا دور ہو رہے ہیں,اتنا ہم زوال کی طرف جا رہے ہیں۔تحقیق کا شعبہ ہم نے نظر انداز کر رکھا ہے۔ہمیں اس بات کی فکر ہے کہ ہمیں حلال کھانا نصیب ہو،اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ رزق حلال طریقے سے آرہا ہے یا حرام طریقوں سے آرہا ہے؟ہمیں اپنی خود احتسابی کرنی ہوگی۔ہمیں اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہم کس سمت کی طرف سفر کر رہے ہیں؟یہ درست ہے کہ ہمارے دشمن ہمیں ترقی یافتہ نہیں دیکھنا چاہتے بلکہ ذلیل و خوار کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی ان کو اپنی حد میں رکھناہوگا۔اس بات سے اسلام منع نہیں کرتا کہ کسی دوسرے کی تحقیق سے فائدہ نہ اٹھایا جائے,بلکہ ان کی تحقیق کو بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کر لیا جائے لیکن اپنی بھی تحقیق جاری رکھنی چاہیے۔فرقوں،رنگ،نسل اور زبان سے بالاتر ہو کر ہمیں سوچنا ہوگا اور عمل بھی کرنا ہوگا۔

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International