May 19, 2025
تازہ ترین / Latest
,Articles,Snippets / Sunday, May 18th, 2025

جبلِ طارق سے جبلِ پہلگام تک


rki.news

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چاروں طرف ٹھاٹھیں مارتا نیلگوں سمندر ہے، اور ایک کنارے سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ قریب سے دیکھنے پر یہ راز افشا ہوتا ہے کہ یہاں پر کچھ بحری جہاز جل رہے ہیں۔ دھیرے دھیرے جلتے ان جہازوں کو دیکھتے ہوئے جبل طارق پر کھڑا طارق بن زیاد بلند آواز میں اپنی سپاہ سے کہہ رہا ہے کہ اب تمہارے پاس واپس لوٹ جانے کا کوئی راستہ نہیں ہے، یا تو فاتح بن کر اس زمین پر حکمرانی کرو یا مفتوح ہو کر شہید ہو جاؤ اور اس زمین میں دفن ہو جاؤ، کیونکہ اب سے یہ زمین تمہاری ملکیت ہے، پھر اس سپاہ نے استقامت اور حوصلے کی وہ داستان رقم کی کہ غزوہ بدر کی طرح سیسہ پلائی دیوار بنے نبیﷺ اور صحابہؓ کی سنت میں کھڑے مجاہد ہسپانیہ پر یوں جھپٹے کہ ایک مدت تک ان کے قدموں کے نشان ہسپانیہ کی زمین پر جمے رہے۔ طارق بن زیاد نے ایک راستہ دکھایا کہ اگر مسلمان اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے نبیﷺ اور صحابہؓ کی سنت کیمطابق بنیان المرصوص کی طرح ثابت قدم رہیں تو فتح صرف اور صرف مسلمانوں کے سر کا ہی تاج بنی رہے گی ۔ وقت نے پلٹا کھایا اور دشمن کو یقین ہو چلا تھا کہ مسلمان اتحاد کا وہ سبق بھول چکے ہیں جس پر چلتے ہوئے ساری دنیا ان کے قدموں میں ڈھیر کر دی گئی تھی۔ اب تو اقبال بھی جوابِ شکوہ میں مسلمانوں کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ ‘ تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو ‘ ۔ دشمن کی سوچ تھی کہ خواب غفلت میں پڑی اس قوم پر ایک وار ہی انہیں مزید ظلمت کے اندھیروں میں دھکیلنے کے لئے کافی ہو جائے گا ۔ مکار دشمن نے پوری پلاننگ سے ایک منصوبہ ترتیب دیا، پہلے پہلگام کا واقعہ کروایا اور پھر بنا تحقیق اس کا الزام پاکستان پر لگا کر ایک ایسا خونی منصوبہ تیار کیا جس کا مقصد پاکستان کی سالمیت پر براہِ راست حملہ کرنا تھا۔ ایک ایسا حملہ جس کیمطابق دشمن کی طاقت ہمیشہ کے لئے تسلیم کر کے سر خم کر دیا جائے گا۔ دشمن بھول چکا تھا کہ سب سے بہتر منصوبہ ساز اللہ کریم کی ذات ہے اور جب صدقِ دل سے التجا کی جائے تو وہ غفور و رحیم ایسے نوازتا ہے کہ بند دروازے بھی کھل جاتے ہیں۔ دشمن رافیل کے زعم میں خود کو فرعون سمجھ کر یہ بھول گیا کہ فرعون کے غرق ہونے کا فیصلہ تب ہی ہو گیا تھا جب اس کے سر میں تکبر سما گیا تھا۔ دشمن نے رات کی تاریکی کو اپنا مددگار سمجھ کر رافیل اور دیگر طیاروں کی پوری فوج یوں اتاری کہ اس کے 80 طیارے فضاء میں اس طمطراق سے اڑ رہے تھے جیسے آج رات کی صبح ہندوستان کے ماتھے پر سنہری کرن کی روشنی سے ہو گی، پھر ہندوستان اس خطے کا نہیں بلکہ دنیا کا سب سے طاقتور ملک قرار پائے گا۔ اپنی طاقت کے زعم میں دشمن اس بات سے غافل تھا کہ اللہ کی نصرت آ چکی ہے ۔ دشمن پاکستان فضائیہ کے جوابی حملے سے غافل ہو چکا تھا۔ ادھر دشمن نے سرحد کی خلاف ورزی کر کے میزائل داغے اور چند لمحوں میں میزائل داغنے والے 6 جہاز خاک چاٹنے پر مجبور ہو چکے تھے۔ دشمن کو احساس تک نہیں رہا تھا کہ ان پر یہ قیامت کیسے اور کہاں سے ٹوٹ پڑی ہے۔ رافیل کو آسمانی دیوتا سمجھنے والوں نے رافیل کا غرور خاک میں ملتے دیکھ کر پسپائی اختیار کی کہ باقی تمام جہاز چند لمحوں میں فضاء سے یوں غائب تھے جیسے کبھی آسمان پر کوئی جہاز تھا ہی نہیں۔ اگلے دن کا سورج ہندوستان کی رسوائی لے کر آیا تھا۔ لیکن ابھی طاقت کا زعم یہ کاری زخم نا ماننے کی ہٹ دھرمی پر اترا ہوا تھا، اور طارق بن زیاد تاریخ کے صفحات سے ان پر ہنس رہا تھا کہ اب تو کشتیاں جل چکی تھیں، عقاب حملے کے لئے تیار ہو چکے تھے۔ پاکستانی ایک سیسہ پلائی دیوار کی طرح ہر محاذ پر ڈٹے ہوئے تھے۔ ہر ہر فرد مجاہد کے روپ میں ہر ہر محاذ سنبھالے دشمن کی ہر چال ناکام بنانے میں مصروف تھا۔ وقت کی سوئیاں ہندوستان کے ماتھے پر کلنک لگانے کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھیں۔ ایک غلطی کرنے پر سبق دینے کی حکمت عملی تیار ہو چکی تھی، اور 9 مئی رات کے اندھیرے میں ہندوستان کی غلطی 3 میزائل داغنے پر ہم نے اللہ سے عہد کیا کہ ہم تیری راہ میں تجھے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنیان المرصوص کی مانند کھڑے ملیں گے ہماری نصرت فرما۔ 10 مئی کی صبح فجر کی آذان مسجدوں سے بلند ہوئی اور ایک دم دشمن پر قیامت ٹوٹ پڑی، 36 شہروں کی زمین ایک ہی وقت میں پاکستانی میزائلوں کا کاری وار سہہ چکی تھی ۔ پاکستان نے دفاعی طاقت کا ایسا مظاہرہ کیا کہ ہندوستان کا وہ بت جو خود کو زمینی دیوتا کے روپ میں دیکھ رہا تھا ایک دم کسی پتھر کی طرح پاش پاش ہو کر زمیں بوس ہو گیا۔ امریکہ کے قدموں پر جھک کر رحم کی بھیک مانگتے ہوئے ہندوستان کا اپنی طاقت کا نشہ ہرن ہو چکا تھا۔ اللہ نے ثابت قدم رہنے والوں پر اپنا کرم کیا تھا ایک بار پھر میدان میں ڈٹ کر کھڑے ہونے والوں کو اکثریت پر فتح دے دی گئی تھی۔ ایک بار پھر عزت سے نواز دیا گیا تھا۔ ایک بار پھر دشمن اپنے عزائم میں ناکام رہا تھا۔ ایک بار پھر دشمن سیسہ پلائی دیوار میں شگاف ڈالنے میں ناکام رہا تھا۔ ایک بار پھر قوم اللہ کے حضور شکر گزاری میں سجدہ ریز تھی کہ اس مشکل وقت میں اللہ کی نصرت سے سرفراز ہو پائے۔ ایک بار پھر جبلِ طارق پر کھڑا طارق بن زیاد سمندر میں دیکھ رہا تھا لیکن اس بار شعلے کشتیوں سے نہیں رافیل طیاروں سے اٹھ رہے تھے۔ طارق کی دعا قبول ہو چکی تھی اور خود کو پہاڑ سمجھنے والے رائی کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکے تھے۔
صبح دم خاک میں لپٹا پڑا تھا وہ دشمن
جو مٹانے ہمیں آیا تھا شب اندھیرے میں

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International