rki.news
اپنے گھر سے اپنے کام تک پہنچنے والا میرا رستہ بہت لمبا اور تھکا دینے والا ہے لیکن رستہ اتنا سجا ہوا، اتنا بابرکت اور اتنا پر رونق ہے کہ مجھے اس تقریباً ایک گھنٹے کی یک طرفہ مسافت نے کبھی بھی بے زار نہیں کیا بلکہ ہر صبح مجھے اس سفر کا بے تابی سے انتظار رہتا ہے. مجھے اپنے کام پہ جانے کے لیے لاہور کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانا ہوتا ہے، ایفل ٹاور، بحریہ جامع مسجد، بی آر بی نہر، پنجاب نیوکیمپس، علامہ اقبال میڈیکل کالج، فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی، ایم او کالج، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی، چڑیا گھر، باغ جناح ،عجایب گھر، انار کلی، جی سی یونیورسٹی، راوی پل گویا روزانہ میں پورے شہر کا اور اس کے مشہور و معروف مقامات کا دیدار کرتی ہوں اور اس قول پہ عمل پیرا رہ کے روزانہ جنم لیتی ہوں کہ جنے لہور نہیں ویکھیا اوہ جمیا ہی نہیں. میرا شہر ایسے ہی خوبصورت، سر سبز اور شاداب رہے اور میں ایسے ہی اسے پنپتا دیکھتی رہوں اور مسرور رہوں، مصروف شہر کی بے پناہ مصروفیات کی بنا پہ کبھی کبھی مجھے اپنا راستہ چھوڑ کے شہر کی تنگ و تاریک گلیوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے، اور ایک چیز جس سے میرا خون سیروں جاتا ہے مجھے اپنے وطن، اپنے شہر اپنے لوگوں پہ پیار آتا ہے وہ یہ کہ مجھے یہاں دو مندر اپنے ناموں سمیت ایستادہ نظر آتے ہیں ایک جین مندر دوسرا شری کرشنا مندر. کبھی یہاں ان مندروں میں باقاعدہ عبادت بھی ہوتی ہو گی لیکن مجھے خوشی ہوتی ہے کہ ان مندروں کو بین المذاہب تقدس کے طور پہ زمانے گزر جانے کے بعد پہ صفحہ ہستی سے مٹایا نہیں گیا یا پھر انھیں گرا کے مساجد تعمیر کی گءی ہیں. اور جب میں استنبول کی نیلی مسجد یا ابو ایوب انصاری کے مقبرے کی زیارت کے لیے گءی تو مجھے یہ دیکھ کے بے انتہا خوشی ہوئی کہ وہاں آنے والے زیادہ تر سیاح غیر مسلم مرد و خواتین تھے مگر انھوں نے مسجد اور مقبرے کے احترام میں جوتے بھی اتار رکھے تھے اور اپنے اپنے سر بھی ڈھانپ رکھے تھے. دوسروں کے مذاہب کا احترام کرنے والے بہت ہی اعلیٰ اور نفیس الطبع ہوتے ہیں. وہ اپنی عزت کروانے کے فن میں ماہر ہوتے ہیں اور اپنی عزت کروانے کا نسخہ صرف ایک ہی ہے کہ
دوسروں کی عزت کی جاے.
ایک آدم کی اولاد، مختلف رنگ روپ، مختلف مذاہب، مختلف زبانیں مگر غرور نے انسان کو کہیں کا نہ چھوڑا اور رسول پاک کا فرمان کہ تم سے پہلی قومیں اس لیے برباد ہوییں کہ ان میں جب کوی امیر آدمی گناہ کرتا تھا تو اسے معاف کر دیا جاتا تھا اور اگر کوئی غریب شخص گناہ کرتا تو اسے بری طرح سے رگیدا جاتا تھا آ، چودہ سو سال گزر جانے کے بعد بھی انسان اپنے عہدے، حیثیت کے استعمال سے باز نہیں آ سکتا، چوہدری کی آکڑ اسے گاوں سے نکلوانے کا سبب بھی بن جاتی ہے مگر جو حیرت ہمیں سپر پاور کے حکمران ٹرمپ صاحب کے مسجد میں جوتے سمیت مسجد کی سیر کرتے ہوئے دیکھنے میں ہوی، اس نے یہ باور کروا دیا کہ اتنے زمانے گزرنے کے بعد بھی انسان اسی عہد جہالت کا باشندہ ہے جب انسانوں تلک ہدایت کی روشنی نہ پہنچی تھی، تب بھی لوگ ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانے کا کوی موقع یاتھ سے نہ جانے دیتے تھے اور آج بھی. کوی ان پڑھ، گنوار، دیہاتی ہوتا تو شاید لوگ سوچتے کہ اس کے پاس شاید عقل اور شعور کی کمی ہے جو مسجد میں جوتوں سمیت مٹر گشت فرما رہا ہے، کسی کے مذہبی مقام کی عزت کرنا بھی بہت بڑا کام ہےاور پانچ وقت کی فرض نمازوں کی ادای تو میدان کربلا میں بھی موخر نہ ہوی تھی اور ایک بادشاہ کو مسجد کی سیر کروانے کے لیے مسجد میں نماز ہی نہ پڑھائی جا سکی. کون ذمہ دار ہے ظاہر ہے وہ مسلم حکمران جو اپنے قد، شان اور ایمان کو دنیاوی فواید کے لیے غیروں کے قدموں تلے ہنسی خوشی رکھ بیٹھے ہیں. تمام مسلمانوں کی خیر.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Naureen drpunnamnaureen@gmail.com