rki.news
جب دنیا ایک طویل اور خونی تنازعے سے تھک ہار کر “امن” کا لفظ سن کر سکھ کا سانس لیتی ہے، تب بعض اوقات یہی لفظ ایک نئے، کہیں زیادہ مہلک کھیل کا پردہ بھی بن جاتا ہے۔ حالیہ فلسطین و اسرائیل تنازعے میں معروف عالمی ماہر معیشت اور دانشور جیفری ساچز کی بصیرت آمیز گفتگو نے اسی پیچیدہ سچائی کو اجاگر کیا ہے۔ ان کے نزدیک اسرائیل کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی کا تصور درحقیقت ایک ایسا جال ہے جو امن کے خوشنما پردے میں لپٹا ہوا ہے، مگر اس کے اندر تباہی اور غلامی کی نئی شکلیں پوشیدہ ہیں۔
جیفری ساچز کہتے ہیں کہ جب اسرائیل جنگ بندی کی تجویز دیتا ہے تو وہ نہ تو حقیقتاً جنگ روکنے کا خواہشمند ہوتا ہے اور نہ ہی انسانی جانوں کی حرمت کا کوئی سنجیدہ تصور رکھتا ہے۔ اس کا اصل مقصد بین الاقوامی دباؤ کو وقتی طور پر کم کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی پوزیشن ازسرِنو مستحکم کر سکے، اور اس دوران دنیا کو دھوکہ دیا جا سکے کہ گویا ایک امن دوست ریاست اپنے دشمنوں کو موقع دے رہی ہے کہ وہ پرامن زندگی گزاریں۔ مگر زمینی حقائق اس بیانیے سے قطعی مختلف ہوتے ہیں۔ غزہ کی تباہ حال سرزمین، جہاں بمباریوں نے ہسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی عمارتوں کو ملبے میں بدل دیا، وہاں جنگ بندی کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ دھماکوں کی آوازیں بند ہو جائیں، لیکن زندگی کی سانسیں باقی نہ رہیں۔
جنگ بندی کے دوران اسرائیل غزہ کا مکمل محاصرہ جاری رکھتا ہے۔ ادویات، خوراک، ایندھن اور صاف پانی جیسی بنیادی انسانی ضروریات بھی پابندیوں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ یہ وہ خاموش ظلم ہے جو توپوں کی گھن گرج کے بغیر بھی ایک قوم کی روح کو گھائل کر دیتا ہے۔ ساچز کے مطابق، اس خاموشی میں ایک عیار خاموش طوفان بپا ہوتا ہے۔ دنیا کو امن کا دھوکہ دے کر، اسرائیل اندرونی طور پر ایک نئی جنگ کی تیاری کرتا ہے، نئے ہتھیار جمع کرتا ہے، اور نئی سفارتی چالوں کے ذریعے اپنی قبضہ گیر پالیسی کو تقویت دیتا ہے۔
عالمی سطح پر بھی ایک مہلک منافقت کا کھیل جاری رہتا ہے۔ وہی عالمی طاقتیں جو بظاہر امن کی بات کرتی ہیں، پسِ پردہ جنگی مشینری کو ایندھن فراہم کرتی ہیں۔ امریکہ، جو بظاہر اسرائیل پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ شہری ہلاکتیں روکے، درحقیقت اسے اربوں ڈالر کی فوجی امداد دیتا ہے۔ یورپی ممالک اقوامِ متحدہ کے پلیٹ فارم پر قراردادیں تو پیش کرتے ہیں، مگر جب وقت آتا ہے کہ عملی قدم اٹھایا جائے، تو سب خاموش ہو جاتے ہیں۔ اقوام متحدہ خود ایک بے بس تماشائی بنی نظر آتی ہے، جو فقط مذمتی بیانات تک محدود ہے۔ جیفری ساچز اس پورے منظرنامے کو ایک “مہلک جال” قرار دیتے ہیں، جس میں فلسطینیوں کو قید کر کے، دنیا کو خوابِ غفلت میں رکھا جاتا ہے۔
ساچز کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اس طرز کی جنگ بندی دراصل ایک “جنگوں کے بیچ کا وقفہ” ہے، امن کا کوئی دیرپا راستہ نہیں۔ ایسی فضا میں نہ عدل ہوتا ہے، نہ انصاف، اور نہ ہی وہ آزادی جس کا وعدہ عالمی معاہدوں میں کیا گیا ہے۔ اگر فلسطینیوں کو ایک محدود علاقے میں محصور رکھ کر، ان کی خوراک، صحت، تعلیم اور روزگار کے دروازے بند کر دیے جائیں، تو کیا ایسی جنگ بندی کو امن کا نام دینا اخلاقی طور پر درست ہے؟ کیا اس جال میں پھنسے انسانوں کی خاموش چیخیں، دنیا کے ضمیر کو جگانے کے لیے کافی نہیں؟
یہ تاریخی تلخ حقیقت ہے کہ اسرائیل نے ہر جنگ کے بعد امن کا پردہ اوڑھ کر ایک نئی یلغار کی تیاری کی۔ 2009، 2014، 2021، اور اب 2023 کے بعد بھی یہی حکمتِ عملی اپنائی گئی۔ جنگ رکتی ہے، لیکن ظلم کی جڑیں مزید گہری ہو جاتی ہیں۔ اور ہر بار، بین الاقوامی برادری اسی جال میں دوبارہ پھنس جاتی ہے، یا شاید دانستہ آنکھیں بند کر لیتی ہے۔
جیفری ساچز کی تنبیہ صرف ایک تجزیہ نہیں بلکہ ایک عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے والی پکار ہے۔ اگر دنیا واقعی امن چاہتی ہے تو اسے “امن کے پردے میں چھپے ظلم” کو پہچاننا ہو گا۔ صرف بندوقیں خاموش ہو جانے سے امن قائم نہیں ہوتا۔ جب تک انصاف کو بنیاد نہیں بنایا جاتا، فلسطینی عوام کو حقِ خود ارادیت نہیں دیا جاتا، اور اسرائیل کو بین الاقوامی قانون کے دائرے میں لایا نہیں جاتا، اس وقت تک ہر جنگ بندی ایک مہلک جال ہی رہے گی ، ایک ایسا جال جو ہر بار امن کے نام پر بچھایا جاتا ہے، مگر درحقیقت انسانی وقار، آزادی اور حقِ زندگی کو کچلنے کا ایک اور حربہ بن کر ابھرتا ہے۔
امن کی سچائی وہی ہے جو عدل سے جڑی ہو۔ بصورتِ دیگر، یہ امن نہیں، ایک مہلک فریب ہے۔