rki.news
سالم سلیم
یار ہیں اپنے طرفداروں کے بیچ
میں اکیلا پڑ گیا یاروں کے بیچ
تیری زلفوں سے رہا ہونے کے بعد
ہم بہت بھٹکے ہیں رخساروں کے بیچ
موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
میں ہی بس اچھا ہوں بیماروں کے بیچ
اے خدا تو ہی بتا آخر میں کیوں
گھومتا جاتا ہوں سیاروں کے بیچ
گھر سے خوش قامت وہ نکلا ہی نہیں
اور قیامت سی ہے بازاروں کے بیچ
گھر بنانے میں کٹی ہے زندگی
لگ چکے ہیں ہم بھی دیواروں کے بیچ
ہر طرف اللہ اکبر کا ہے شور
گھر گئی ہے خامشی نعروں کے بیچ