July 04, 2025
تازہ ترین / Latest
,Articles,Snippets / Wednesday, July 2nd, 2025

مالیاتی اور معاشی نظام میں جاری اصلاحات


rki.news

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

پاکستان کی معیشت ایک طویل عرصے سے اندرونی و بیرونی چیلنجز کا شکار رہی ہے، جن میں سیاسی عدم استحکام، غیر متوازن درآمد و برآمد، محصولات میں کمی، بیرونی قرضوں کا بوجھ اور سرمایہ کاری کی عدم دستیابی نمایاں ہیں۔ حالیہ برسوں میں وفاقی وزارتِ خزانہ اور اس کے ماتحت اداروں کی جانب سے کی جانے والی مالیاتی و معاشی اصلاحات نے ملکی معیشت کو کچھ حد تک استحکام بخشا ہے، تاہم یہ بہتری جزوی ہے اور مکمل اقتصادی خودمختاری کے لیے مزید دیرپا اور گہری اصلاحات کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی مالیاتی پالیسیوں کی بنیاد 1947ء میں برطانوی طرز کے محصولات اور بینکاری نظام پر رکھی گئی۔ 1980ء کی دہائی سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ مالیاتی معاہدوں نے پاکستان کو اصلاحات کے عمل میں داخل کیا، تاہم یہ اصلاحات زیادہ تر قرضوں کی شرائط کی تکمیل تک محدود رہیں۔ 2008ء کے بعد سے معیشت نے کئی جھٹکے برداشت کیے جن میں دہشت گردی، بجلی بحران، کرپشن اور زرمبادلہ ذخائر کی کمی شامل ہیں۔ موجودہ دور کی اصلاحات بھی انہی سلسلوں کی ایک کڑی ہیں، جنہیں نئے وژن، ڈیجیٹلائزیشن اور ٹیکس نیٹ کے فروغ کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

رواں مالی سال (جولائی تا مئی) کے دوران ترسیلات زر میں 28.8 فیصد اضافے سے 34 ارب 89 کروڑ ڈالر کی آمد، بلاشبہ ایک حوصلہ افزا اشارہ ہے۔ یہ اضافہ خاص طور پر مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکہ میں پاکستانی افرادی قوت کی بڑھتی سرگرمیوں اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ جیسے اقدامات کا نتیجہ ہے۔ ترسیلات زر کا یہ بہاؤ نہ صرف زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری لاتا ہے بلکہ مقامی سطح پر کھپت و سرمایہ کاری میں بھی مدد دیتا ہے۔

برآمدات و درآمدات میں توازن کا بگڑتا پلڑا ملک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔اگرچہ برآمدات میں 4 فیصد اضافہ ہوا ہے اور ان کا حجم 29 ارب 69 کروڑ ڈالر رہا، لیکن درآمدات 11.5 فیصد اضافے کے ساتھ 54 ارب 8 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، جس سے تجارتی خسارہ بدستور قائم ہے۔ اس عدم توازن کی بڑی وجہ خام مال، تیل، صنعتی مشینری اور زرعی اجناس کی بھاری درآمدات ہیں، جبکہ برآمدات میں ویلیو ایڈیشن کا فقدان ہے۔

یہ صورت حال اس امر کی متقاضی ہے کہ حکومت برآمدات کے شعبے میں تحقیق، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، صنعت کاری اور زرعی اصلاحات پر توجہ دے تاکہ عالمی منڈی میں پاکستانی مصنوعات کی مسابقت بڑھے۔

محصولات میں اضافہ نیک شگون ہے اور پاکستان اپنے ہدف کے قریب پہنچنے کے قریب ہے مگر چیلنجز ابھی بھی باقی ہیں۔ ایف بی آر نے رواں مالی سال کے 11 مہینوں میں 25.9 فیصد اضافے کے ساتھ 10234 ارب روپے ٹیکس جمع کیا، جو گزشتہ سال کے 8126 ارب روپے سے نمایاں حد تک زیادہ ہے۔ اسی طرح نان ٹیکس ریونیو میں 68.1 فیصد اضافہ ہوا جو 4354 ارب روپے تک جا پہنچا۔ اس کے باوجود سالانہ ہدف میں تقریباً 1250 ارب روپے کی کمی تشویشناک ہے۔

اس کمی کی بنیادی وجوہات میں ٹیکس نیٹ کی محدودیت، مراعات یافتہ طبقات کے اثرات اور ریونیو نظام میں شفافیت کی کمی شامل ہیں۔ ایف بی آر کو جدید ڈیجیٹل سسٹمز اور ٹریک اینڈ ٹریس میکانزم کو مکمل فعال کرنا ہوگا تاکہ ٹیکس چوری کو کم سے کم کیا جا سکے۔

مہنگائی، پیٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے نے عوامی زندگی کو اجیرن بنادیا ہے۔اپریل میں مہنگائی کی شرح تاریخی کم ترین سطح (0.9 فیصد) پر تھی، لیکن جون اور جولائی میں پٹرولیم مصنوعات اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے دوبارہ 3 سے 4 فیصد تک مہنگائی بڑھنے کے خدشات ہیں۔ اس کا براہ راست اثر عوام کی قوتِ خرید پر پڑے گا، خاص طور پر کم آمدنی والے طبقے پر۔ توانائی کے شعبے میں سبسڈی اور متبادل ذرائع (سولر، ہوا) پر سنجیدہ حکمت عملی وقت کی ضرورت ہے۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج اعتماد کی علامت ہے یا فریب؟ اس سوال کا جواب ابھی تک حل طلب ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی تاریخی بلندی (128000 پوائنٹس) سرمایہ کاروں کے اعتماد کا اظہار ہے، تاہم یہ اعتماد حقیقی معیشت کی کارکردگی پر منحصر نہیں بلکہ زیادہ تر مالیاتی چالاکیوں، قلیل مدتی سرمایہ کاری اور مالیاتی افواہوں کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ ایسے میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 7.6 فیصد کمی خطرے کی گھنٹی ہے۔

پاکستان کو اگر طویل مدتی بیرونی سرمایہ کاری حاصل کرنی ہے تو قانون و امن کی صورت حال، خاص طور پر دہشت گردی، کو کنٹرول میں لانا ہوگا۔ سرمایہ کار ایک محفوظ، مستحکم اور شفاف ماحول چاہتے ہیں۔

مجموعی طور پر دیکھا جائے تو مالیاتی و اقتصادی نظام میں جاری اصلاحات کے مثبت اشاریے موجود ہیں، مگر یہ اصلاحات ابھی تک بنیادی ڈھانچے اور پیداواری نظام کو مکمل بدلنے میں ناکام ہیں۔ چند تجاویز درج ذیل ہیں جن پر عمل کرکے پاکستان کو بحران سے نکالا جاسکتا ہے۔ برآمدات میں تنوع پیدا کیا جائے، خصوصاً انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات کو فروع دیا جائے۔ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے لیے زراعت، پراپرٹی اور ریٹیل سیکٹر پر بھی مؤثر نظام نافذ کیا جائے۔ مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع پر فوری سرمایہ کاری کی جائے۔ امن و امان کی بحالی کے لیے نیشنل ایکشن پلان کو حقیقی معنوں میں نافذ کیا جائے تاکہ بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو۔

یہ تمام اقدامات محض اعداد و شمار کو بہتر بنانے کے لیے نہیں بلکہ عام آدمی کی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ معاشی اصلاحات کی اصل کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب وہ عوامی فلاح اور قومی خودمختاری کا ضامن بنیں۔ امید ہے کہ موجودہ حکومت سیاسی بیانات سے نکل کر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر توجہ دے گی۔

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International