July 04, 2025
تازہ ترین / Latest
,Literature - جہانِ ادب / Wednesday, July 2nd, 2025

افسانہ: کینڈل لائٹ ڈنر


rki.news

‎تحریر :: کاشی چوہان
‎کراچی
‎ہوا میں خزاں کی مہک تھی، کچھ اداسی، کچھ تنہائی، اور کچھ پُرانی یادوں کا ہجوم۔ لاہور کی ایک پرانی کوٹھی کے ڈرائنگ روم میں، ایک چھوٹی سی میز پر دو شمعیں جل رہی تھیں۔ دیواروں پر وقت کی دراڑیں تھیں، جیسے کوئی رشتہ پرانا ہو کر بھی ختم نہ ہوا ہو۔

‎وہ بیٹھی تھی، سفید دوپٹہ شانوں پر ڈھلکا ہوا، ہاتھ میں چینی کی پیالی، جس سے ہلکی سی بھاپ اُٹھ رہی تھی۔ وہ چائے نہیں پیتی تھی، مگر آج اس نے بنائی تھی… صرف اس کے لیے۔ شاید عادتیں انسان سے زیادہ دیر زندہ رہتی ہیں۔

‎“آج بھی وہی دن ہے، جب تم پہلی بار مجھے لے کر یہاں آئے تھے…” اُس نے کمرے کے خاموش کونے سے جیسے دیواروں سے بات کی۔ “کینڈل لائٹ ڈنر؟” اُس نے ہنستے ہوئے پوچھا تھا اُس دن، “یہ تو فلموں میں ہوتا ہے۔”

‎اور وہ ہنسا تھا۔ اس کی ہنسی جیسے وقت کو روک دیتی تھی۔ وہ میز پر بیٹھا تھا، اُس کے سامنے، موم بتیوں کی روشنی میں، اور کہتا تھا:
‎“ہر لمحہ فلم ہو سکتا ہے اگر تم اس میں اداکارہ بن جاؤ۔”

‎مگر فلم ختم ہو گئی تھی۔ وہ چلا گیا تھا۔ کیوں گیا؟ شاید اس لیے کہ زندگی صرف فلم نہیں ہوتی، اس میں بینکر بننا پڑتا ہے، بل جمع کروانے پڑتے ہیں، اور ماں کی دوائیوں کا بندوبست بھی۔

‎مگر وہ… وہ وہیں رہ گئی۔ اسی لمحے میں۔ اسی موم بتی کی روشنی میں۔

‎وقت کی دیوار پر لٹکی گھڑی نے آہستہ سے گھنٹی دی۔ سات بجے تھے۔ وہی وقت جب دس سال پہلے وہ آیا تھا۔

‎وہ اٹھی۔ میز کے گرد دو پلیٹیں رکھیں۔ ایک خالی۔ ایک میں صرف اُس کی پسند کا کھانے کا خاکہ: باسی روٹی، اور اچار۔
‎مگر اُس نے اپنے ہاتھوں سے میز پر سفید کلف زدہ دسترخوان بچھایا، ناپ تول کر کانٹے چھری رکھی، اور شیشے کے گلاس میں ٹھنڈا پانی۔

‎موم بتیوں کی روشنی تھوڑی تھوڑی مدھم ہو رہی تھی، جیسے رات بھی شرما رہی ہو۔

‎“تمہیں یاد ہے؟ تم نے کہا تھا… ‘جو عورت محبت سے کھانا پکاتی ہے، وہی اصلی بیوی ہوتی ہے۔’” اُس نے میز پر بیٹھ کر آہستہ سے کہا۔

‎میز کے اس پار کرسی خالی تھی۔ مگر اس کی آنکھوں میں جیسے کسی کا عکس تھا۔ وہ بولی:

‎“اور میں نے تم سے کہا تھا… ‘جو مرد عورت کے ہاتھ سے باسی روٹی کھا لے، وہی اصلی شوہر ہوتا ہے۔’”

‎کمرے میں ہنسی گونجی۔ وہی ہنسی… جو برسوں پہلے ہوا کرتی تھی۔ فرق صرف یہ تھا، اب ہنسی سنائی نہیں دیتی تھی، صرف محسوس ہوتی تھی۔

‎کھانے کے بعد اُس نے میز سمیٹی۔ پلیٹیں دھوئیں۔ اور موم بتیاں بجھائیں۔

‎بس ایک موم بتی باقی رہنے دی۔

‎کمرے میں اب روشنی کم تھی، پر دل میں سکون تھا۔

‎دروازے کے پاس جا کر اُس نے آخری بار پیچھے دیکھا، جیسے کسی کی موجودگی محسوس کر رہی ہو۔
‎اور پھر دھیرے سے کہا:

‎“اگلے سال… اسی دن… اسی وقت… میں پھر تیار ہوں گی… اگر تم آؤ تو… ورنہ میں آ جاؤں گی۔”

‎دروازہ بند ہوا۔ ہوا کے ایک جھونکے نے موم بتی بجھا دی۔

‎مگر اُس شام… محبت کی روشنی کمرے میں دیر تک جلتی رہی۔

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International