rki.news
وقت وقت کی بات ہے، کبھی پرانے وقتوں میں یہی کوی آج سے بیس پچیس سال پہلے لوگوں کے گھر بھلے چھوٹے ہی ہوتے تھے، دل بڑے اور گھروں کے دروازے سب پہ وا ہوتے تھے. مہمان کو واقعی ہی رحمت سمجھا جاتا تھا،لوگ مہمانوں کے آنے پہ خوشی سے جھوم جھوم جاتے تھے اور لب مسکراتے تھے،طرح طرح کے پکوان خوشی خوشی بناے جاتے تھے، مہمانوں کے ساتھ سیر سپاٹے کے پروگرام تشکیل دیے جاتے تھے،مزے مزے کے پکوان تیار کیے جاتے تھے وہ سادہ زمانے تھے گھروں میں زردہ چاول، گڑ والے چاول، حلوہ جات، مربے چٹنیاں بنا کر ہی لوگ سمجھتے تھے کہ انھوں نے فائیو سٹار ہوٹل سے کھانا کھا لیا. ان زمانوں میں گرمیوں میں برف کے ٹھنڈے ٹھار گولے اور ان پہ رنگ برنگے میٹھے شربت کی دھاریں کسی بھی مہنگی سویٹ ڈش سے بڑھ کر مزے دار اور ذائقہ دار تھیں. لکن میٹی، پٹھو گول گرم،ریڈی گو، شٹاپو اور وہ دیوار چین جتنی لمبی لمبی پینگیں جن پہ جب کوئی اپنی باری آنے پہ چڑھ جاتا تو اس سے پینگ کا قبضہ چھڑوانا اتنا ہی مشکل ہو جاتا جتنا اپنے ذاتی پلاٹ پر سے کسی کا ناجائز قبضہ چھڑوانا. چھوٹے بڑوں کے احترام اور بڑے چھوٹوں کے پیار میں پاگل پن کی حد تک پور پور ڈوبے رہتے تھے، عجب ہی روحانی زمانہ تھا جب نفسانفسی کی وبا وایرل نہ ہوی تھی اور انسانیت اپنے پورے جوبن پہ تھی لوگوں کو اللہ کے حقوق سے زیادہ لوگوں کے حقوق زیادہ پیارے تھے انھیں یہ بات رٹو طوطے کی طرح منہ زبانی یاد تھی کہ حقوقِ اللہ کی تو قضا یے مگر بندوں کے حقوق کی قضاء کوی نہیں. اللہ جانے ہمیں کسی کی بد عا لگی یا کسی حاسد کی نظر کہ ہمارے رشتوں میں بھی دراڑیں پڑنا شروع ہو گییں، مطلب ہم بھی کمزور ہونا شروع ہو گیے،ہم اتنے ماڈرن ہو گیے کہ. ہمیں بہن بھائیوں کے گھروں کے در کھٹکھٹانے سے پہلے بھی ان سے اجازت نامہ لینے کا محتاج ہونا پڑا. مشترکہ خاندانی نظام کے شیرازے بکھر گیے، ہم بھی مغربی طرز معاشرت کی طرح اپنے اصل سے ایسے ہٹے کہ بالکل ہی برباد ہو گیے.
اور رشتوں میں ان دراڑوں نے ہمیں کاغذ سے بھی زیادہ ہلکا کر دیا.
دراڑ
شیشے میں دراڑیں اچھی ہیں
شیشے کی کرچن وارے ہے
رشتوں میں دراڑیں الجھن ہیں
اک سوگ نرا
اک روگ نرا
تو جب ہم سب نے میں میں کی مالا جپنا شروع کی تو ہم ٹشو پیپر جیسے ہو گیے،
Once used then disposed
بھای چارہ ،مساوات اور اخلاقی قدروں کے جنازے جس طرح ہم نے اٹھتے دیکھے ہیں، کوی نہ دیکھے، نہ کوی بھائی اور نہ کوی بہن نہ کوئی تہذیب اور نہ رواداری، نہ کوی پیار اور نہ کوی محبت.
اس دور میں الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑ وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
تو ہم اس مروت اور وفا کو ڈھونڈتے ہی رہیں گے اور وہ ہمیں اب نہ ملے گی. نفسانفسی کی وبا نے اپنے پنجے چہار سو یوں گاڑے کہ اہل مروت و محبت خالی آنکھوں میں خواب لے کر دیوار سے لگا دیئے گیے، لوگ ،اپنوں، بیگانوں سے متنفر ہو گیے، آنکھیں ماتھے پہ رکھے سماج میں ہمارے جیسے سادہ دل انسان کیا جی پاتے، بس صبر کے چند کڑوے گھونٹ بھر کے اپنے آپ کو تسلیاں ہی دے پاے اور اپنے پیاروں کے ساتھ بتاے گیے دنوں کی یاد میں ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں نہ جیتے نہ مرتے ہیں.
اور بے حسی کے نوحے ایک دوسرے کو سناتے ہیں کہ.
رشتوں نے پھیر لیا منہ رشتوں سے
نہ ہے اپنا نہ کوی پرایا ہے
زندگی نام بے رخی کا ہوا
اپنا ہے نہ کوی پرایا ہے
کتنا ہے قہر جو کمایا ہے
کیا نگاہوں کی کم نگاہی ہے
نہ ہی ہمسایہ نہ ماں جایا ہے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam.naureenl@icloud.com