August 27, 2025
تازہ ترین / Latest
,Articles,Snippets / Thursday, August 21st, 2025

قدرت کا جواب


rki.nws

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا ، ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے ، ریڈیو اور ایف ایم پر بارش کا آغاز ہوتے ہی اک گانا ‘بارش کا ہے موسم، چلے ٹھنڈی ہوا ‘ بجنا شروع ہو جایا کرتا تھا۔ سب کے دلوں میں موسم خوشگوار ہونے کی امید جگاتے اس گانے سے ایک انسیت سی ہو جایا کرتی تھی، ایک خوشی کا احساس جاگ اٹھتا تھا۔ آج بھی آسمان پر بادل منڈلاتے دیکھ کر دل یہ گانا گنگنانےکا ہو ہی رہا تھا ، کہ دماغ نے فوراً ڈانٹتے ہوئے ہمیں ایسی حرکت کرنے سے روکتے ہوئے کہا ، ذرا ٹھہر جائیں ، پاکستان کے موجودہ خستہ حالات اور زمینی حقائق کو  کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بادلوں سے زیادہ برسنے کی فرمائش کرنا اپنی موت کو آپ دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اب تو وہ حالات ہیں کہ انسان ہلکی ہلکی پھوار کا مزہ لینے کے لئے کافی کا کپ پکڑے، بالکنی میں کھڑے ہو کر باہر کے نظارے کا لطف لینے کی کوشش ہی کر رہا ہوتا ہے ، کہ اتنی ہلکی پھوار میں بنتے خوشگوار موڈ کا بجلی کی فوری تعطلی یوں بیڑہ غرق کر دیتی ہے جیسے ہر ماہ بجلی کا بل دیکھ کر موڈ کا حشر نشر ہو جایا کرتا ہے۔ موسم کا لطف لینے کے بجائے جنریٹر یا پھر یو پی ایس کی طرف بھاگنا پڑتا ہے تاکہ اس اندھیرے میں امید کی کوئی شمع تو روشن کی جا سکے ۔ حالیہ دنوں میں محکمہ موسمیات کی طرف سے بارش ہونے کی پیشنگوئی کچھ خوفناک دھمکیوں کیساتھ آئی تھی۔ تبدیلی ء موسم نے مغرب کی بے پرواہیوں کا انتقام مشرق سے نکالنے کا جو غیر منصفانہ فیصلہ کیا ہے، اُس کو بھگتنے کے لئے ہماری تیاریاں اتنی ہی ہیں، جتنی غریب کے پاس عید منانے کی تیاریاں ہوتی ہیں۔ خیر جی محکمہ موسمیات کی پیشنگوئی کے عین مطابق بادل اس بار خوب سارا غصہ دکھانے اور عوام پر برسانے آ موجود ہوئے ہیں۔ بادلوں نے خوب چالاکی سے پہلے پہل ہلکی ہلکی پھوار سے آغاز کیا۔ عوام نے جیسے ہی اس پھوار سے لطف اندوز ہونے کا پروگرام بنایا۔ بادلوں نے پروگرام کو یوں بڑھاوا دیا کہ ہلکی ہلکی پھوار کا مزہ تہہ و بالا کر کے رکھ دیا ہے۔ یوں گرج گرج کر دل دہلا رہے ہیں جیسے موسمیاتی تغیر کے انتقام پر آمادہ ہو کر آئے ہیں ۔ بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں، لیکن آج گرجنا اور برسنا ساتھ ساتھ دیکھ کر یوں لگ رہا ہے کہ ہمارے بزرگوں کے اعمال ہی بہت اچھے تھے، تبھی یہ بادل اس دور میں ایک وقت میں ایک ہی کام خوشی خوشی کر لیا کرتے تھے، یا تو گرجتے تھے یا پھر برستے تھے۔ اب ہمارے اعمال پر ان بادلوں نے پرانا رویہ ترک کر دیا ہے۔ اب تو یہ بادل گرج گرج کر برسنے کے نئے پروگرام پر عملدرآمد ہو رہے ہیں۔ لگتا ہے وہ محاورہ بھی بدلنا پڑے گا، جو بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں۔ یہ نئی جنریشن ہے اب اس جنریشن کے لئے محاورے بھی نئے ہی بنانے پڑیں گے ۔ اب محاورہ ہو گا، جو گرجتے ہیں وہ برستے بھی ہیں۔
سنا تھا کہ آخر کے زمانوں میں کسی پر اعتبار خود کو برباد کرنے کے زینے پر پہلا قدم ہو گا۔ لگتا ہے اب اعتبار بادلوں پر بھی کرنا منع ہے ۔ اُن لوگوں کا حال تو اور ابتر ہوا ہے جو پرانے محاورے کو سچ سمجھ کر باہر لطف لینے نکل پڑے تھے، کہ گرجنے دو برسنے تھوڑی ہیں، مگر تھوڑی دیر میں شہر یوں جل تھل ہوا کہ الاماں الحفیظ۔
سارا دن سوشل میڈیا پر مختلف ویڈیوز دیکھ کر یہ سمجھ  نہیں آ رہا کہ یہ شہر ہی ہے ، یا ہم دریا کے کنارے نکل کھڑے ہوئے ہیں ۔ ہر طرف لوگ بے بسی کی تصویر بنے نظر آ رہے ہیں۔ پانی اتنا ہے کہ زمیں کہاں ہے ، اس کا اندازہ کئی لوگوں کو گڑھے میں گرنے کے بعد ہوا ہے۔ گاڑیاں بنا ڈرائیور کے ‘ میں اڈی اڈی جاواں ہوا دے نال ‘ گاتی یہاں سے وہاں تیرتی نظر آ رہی ہیں۔ تاحد نگاہ پانی ہی پانی ہے، اور لوگ بیچارے مدد کے لئے اوپر آسمان کی طرف دیکھ کر کہہ رہے ہیں، یا اللہ تیرا ہی آسرا ہے ، زمینی آسروں نے تو بے یارومددگار چھوڑ دیا ہے ۔
سارا دن بارش سے بھیگتے اور بادلوں کی شرارت سے تنگ عوام واپس گھروں کے لئے راستے ہی ڈھونڈتی رہی۔ کون کس طرح گھر پہنچا اس کے لئے زیادہ عقل کے گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بمشکل گھر پہنچ کر ان احباب کے لئے یہ علم بھی جان لیوا ثابت ہوا کہ جناب سب کی چہیتی بجلی بھی روٹھی بیٹھی ہے ۔ اب گھر پہنچ کر بھی نہ تو سارا دن پانی کی تکلیف سے نکل کر گھر پہنچنے کی راحت کا احساس مل سکا اور نہ ہی چند لمحوں کا سکون ۔
حکومت اپنی کوششوں کو سراہنے کے لئے الفاظ کا وہ پل بنا رہی ہے، جس سے ان کی سرکار تو بنا ڈوبے پار اتر جائے گی، مگر عوام آئندہ کے لئے بھی ذہنی طور پر خود کو ڈوبنے کے لئے تیار کرنے میں لگ جائے گی ۔ مکمل نظام کی قلعی کئی مرتبہ کھلی ہے اور ہر مرتبہ وعدہ ء فردا سن کر بہلتے عوام اس مرتبہ بھی چپ چاپ بہل جائیں گے کہ اس کو سوا عوام کو آتا بھی کیا ہے ۔ جن کے نقصانات ہوئے ہیں وہ بھی صبر و شکر کا دامن پکڑ کر اللہ کی طرف سے مدد کا انتظار کرنے میں لگ جائیں گے۔ جو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ان کی یاد بھی چند دن میں بھلا دی جائے گی۔ زندگی معمول کی طرف لوٹ جائے گی، اور پھر اگلی بارش تک سب بھلا دیا جائے گا۔ کب تک ہم یہ سب صرف قدرت پر ڈال کر اپنی ذمہ داریوں سے پردہ پوشی کرتے رہیں گے ؟ اس میں صرف حکومتوں کا دوش نہیں کچھ قصور عوام کا بھی جو شہر کو اپنا نہ سمجھتے ہوئے اس کی طرف توجہ دینے سے قاصر ہیں ۔ اس کی صاف صفائی کا نظام سدھارنے کی طرف سے غافل ہیں ۔ سڑکوں کے لئے ناقص میٹیریل کا استعمال کرتے ہوئے اس بات سے انجان ہیں کہ قدرت کا نظام جب انصاف کرتا ہے، تو گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جایا کرتا ہے۔ ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں ادا کیجئیے ۔ اس شہر کی گود میں پلنے والوں پر رحم کیجئیے ۔ اس شہر کا درد سمجھئے۔ اس ملک کی ترقی کے لئے اپنا ہنر کام میں لائیے۔
قدرت جب لاٹھ چلاتی ہے تب سب ٹھاٹھ دھرا رہ جاتا ہے ۔ اب بھی وقت ہے شہر اور ملک کی بہتری کی طرف توجہ دیجئیے، کیوں کہ جواب آپ عوام کو چاہے نہ دینا چاہتے ہوں، لیکن قدرت بنا سوال اپنا جواب آپ تک خود پہنچا دیتی ہے۔

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International