August 27, 2025
تازہ ترین / Latest
,Articles,Snippets / Thursday, August 21st, 2025

غزہ میں غذائی بحران کی شدت


rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

غزہ میں غذائی بحران شدت اختیار کر چکا ہےاور فلسطینی بھوک سے مر رہے ہیں۔وہاں بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔غزہ میں لاکھوں افراد شدید غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔اب تک 227 افراد بھوک کی وجہ سےشہید ہو چکے ہیں اور ان میں 103 کے قریب بچے تھے۔اقوام متحدہ سمیت او آئی سی اور اسلامی ممالک کی خاموشی بہت ہی افسوسناک ہے۔بھوک سےبلبلاتے معصوم بچے فلسطینی ہونے کی سزا بھگت رہے ہیں۔بھوک بہت ہی اذیت ناک ہوتی ہےاور بھوک سے مرتا انسان موت تک پل پل اذیت برداشت کرتارہتا ہے۔غذا کی قلت نے قحط کی صورت اختیار کر لی ہےاور یہ قحط اسرائیل نے جان بوجھ کر پیدا کیا ہوا ہے۔انسانی جسم پر بھوک کے اثرات آہستہ آہستہ مرتب ہوتے ہیں اور انسانی جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔غزہ کےلاکھوں لوگ بھوک کی تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔بھوک انسانی جسم کے ساتھ انتہائی بدترین سلوک کرتی ہے۔بھوک انسانوں کے جگر میں ذخیرہ شدہ گلائیکو جن کوجلاتی ہے تاکہ خوراک سے نہ مل سکنے والی توانائی کی ضرورت پوری ہو سکے۔جگر میں گلائیکو جن کا جب خاتمہ ہو جاتا ہے تو بھوک کا اگلا حملہ پروٹینز اور چکنائیوں پر ہوتا ہے،جو پہلے ہی جسم میں جمع ہوتی ہیں۔بھوک حملہ آور ہو کر جسم کی تمام انرجی ختم کر دیتی ہے۔انسانی جلد کا رنگ پیلا ہونےکےعلاوہ وزن بھی کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔بھوک سے آنکھیں دھنس جاتی ہیں، ہاتھ پاؤں انتہائی لاغر ہو جاتے ہیں اور بھوک کا شکار جسم آخر کار حرکت کرنے سے بھی انکار کر دیتا ہے.اس طرح جسم کے تمام اعضاء طاقت کھونا شروع کر دیتے ہیں۔بالآخرانسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔اگر ایک انسان بھوک کی سفاکی سےبچ بھی جائے تو ساری عمر تکالیف کا شکار رہتا ہے۔بڑوں کو تو چھوڑے،نوزائدہ بچے بھی دودھ کے چند قطروں کے لیےتڑپ رہے ہیں۔
اسرائیل فلسطینیوں کو ختم کرنا چاہتا ہے،اس لیے غزہ تک جانے والی خوراک کو روک دیا گیا ہے۔بین الاقوامی دباؤ پر اسرائیل نےخوراک کے چند ٹرک غزہ میں داخل ہونے دیےہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق 1334 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں،حالانکہ ایک دن کی ضرورت 600 ٹرک ہیں۔دیگرتمام ٹرکوں کو بارڈر پر روک دیا گیا ہے۔جنگ کی وجہ سے بھی خوراک پہنچنے میں دشواری پیش آ رہی ہے،حالانکہ جنگ بندی ہو چکی ہے۔اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ ہوا تھا لیکن اسرائیل کی طرف سےاس معاہدے پر عمل درآمدنہیں ہو رہا ہے۔یہ جنگ سات اکتوبر 2023 میں شروع ہوئی تھی اور اب بھی جاری ہے۔اس جنگ میں باسٹھ ہزارچونسٹھ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔زخمیوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہےاور کافی لاپتہ بھی ہیں۔شہید ہونے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔مسلسل بمباری نے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے۔ہتھیاروں اور بمباری سے بچنے والوں کو بھوک سےمارا جا رہا ہے۔کچھ خوراک فضامیں طیاروں کے ذریعےپھینکی گئی تھی۔فضا کے ذریعے پھینکی جانے والی خوراک زمینی راستے کی بجائے زیادہ مہنگی ہے،اس کے اخراجات 100 فیصد تک بڑھ جاتے ہیں۔دوسرا مسئلہ یہ پیش آتا ہے کہ فضا کے ذریعے گرائی جانے والی خوراک فلسطینیوں کو زخمی بھی کر دیتی ہے۔بہرحال اس وقت غزہ کی صورتحال بہت ہی نازک ہو چکی ہےاور لاکھوں انسان موت کے منہ میں پہنچنے والے ہیں۔سونے کے بھاؤ معمولی سی خوراک بھی خریدی جارہی ہے۔معمولی سی خوراک کی مقدار کے لیے بھی جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں،کیونکہ بھوک کی وجہ سے ہر فرد مجبور ہو چکا ہے کہ وہ خوراک حاصل کرے۔کچھ دن پہلے ٹرکوں کے ذریعےادویات بھیجی جارہی تھیں تو حکومت کو اعلان کرنا پڑا کہ صرف ادویات آرہی ہیں اور خوراک نہیں ہے۔حکومت کو اعلان اس لیے کرنا پڑا کہ کہیں ٹرکوں پر حملے نہ ہو جائیں۔اسرائیل کی طرف سے ایک اور سفاکانہ عمل بھی اکثر کیا جاتا ہے اور وہ ہے خوراک کے لیے جمع ہونے والے افراد پر فائرنگ۔کئی دفعہ خوراک کے لیے جمع ہونے والے افراد پر فائرنگ کردی جاتی ہے جس سےکئی افراد شہید ہو جاتے ہیں۔خوراک اور ادویات کے علاوہ بجلی اور پانی کی بھی شدید قلت ہے۔
اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کرنا چاہتا ہے اس لیے فلسطینیوں کے لیےخوراک روک دی گئی ہے۔اسرائیلی حکام غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے اضافی فوجیوں کی طلبی کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔60000 ہزار ریزرو فوجیوں کو طلب کر دیا گیا ہے اور مزید 20000ہزار فوجی طلب کیےجائیں گے۔غزہ کے مختلف علاقوں پرحملے شروع کر دیے گئے ہیں۔اسرائیل اور امریکہ چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کی بڑی تعداد دوسرے ممالک میں پناہ گزین ہو جائے،لیکن فلسطینی کسی بھی حال میں اپنی زمین چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ہجرت جہاں فلسطینیوں کے لیےمسائل پیدا کرے گی وہاں ان ممالک کے لیے بھی مسائل پیدا کر دے گی جہاں وہ پناہ گزین ہوں گے۔فلسطینی بمباری، بھوک، بیماری سمیت مختلف قسم کے مصائب کا مقابلہ کر رہے ہیں لیکن اپنا علاقہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر کےمظلوم فلسطینیوں کو تباہ کر رہا ہے۔جنگ نے فلسطینیوں کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔اسرائیل کے اس ظالمانہ فعل کو طاقت کے ذریعے روکنے کی ضرورت ہے،مگر زیادہ سے زیادہ مذمت کر دی جاتی ہےاور اس سےسمجھ لیاجاتا ہے کہ ہم نے اپنا حق ادا کر دیا۔بھوک سےفلسطینیوں کو بچانے کی ضرورت ہے ورنہ لاکھوں انسان ہلاک ہو جائیں گے۔بھوک کے علاوہ جنگ بندی بھی ضروری ہے تاکہ وہ دوبارہ بحال ہو سکیں۔یہ جنگ رکنے میں اس لیے بھی نہیں آرہی کہ کچھ بڑی طاقتیں نہیں چاہتیں کہ یہاں امن آئے۔اقوام متحدہ کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور امت مسلمہ بھی بیدار ہو جائے تاکہ خطے میں امن آسکے۔امت مسلمہ کی نا اتفاقی کی وجہ سےمسلمانوں کو بہت ہی نقصان پہنچ رہا ہے۔فلسطینی اس وقت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اور اس جنگ میں فلسطینیوں کا ساتھ دینا لازمی ہے۔لاکھوں انسانوں کو بچانے کی ضرورت ہے۔فوری طور پر ان تک انسانی امداد پہنچنی چاہیے ورنہ ایک بڑی نسل انسانی ختم ہو جائے گی۔

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International