August 27, 2025
تازہ ترین / Latest
,Articles,Snippets / Sunday, August 24th, 2025

تربیت اور نصیحت سے عاری “جنریشن زیڈ اور جنریشن الفا”


rki.news

دنیا بدل رہی ہے، اور اس کے ساتھ ہی انسان کی زندگی کا ہر پہلو بھی۔ سن 2000 کے بعد پیدا ہونے والی نسل کو عام طور پر جنریشن زیڈ اور اس کے بعد کی جنریشن الفا کہا جاتا ہے۔ یہ وہ نسل ہے جس کی تربیت ماں باپ کے بجائے زیادہ تر انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے کی ہے پاکستان جیسے معاشروں میں جہاں نوجوان آبادی کی بڑی اکثریت ہیں، اس نسل کا حال اور مستقبل دونوں ہی ایک اہم سوال ہیں سن 2000 کے بعد پیدا ہونے والی نسل ہمارے سامنے ہے یہ وہ نسل ہے جو ماں کی لوری اور باپ کی ڈانٹ میں نہیں پلی، بلکہ موبائل کی گھنٹیوں اور سوشل میڈیا کی کرنوں میں بڑی ہوئی کبھی بچے گلیوں میں دوڑتے تھے، کرکٹ کھیلتے، لکن میٹی کے شور سے گلیاں گونجتی تھیں۔ آج گلیاں سنسان ہیں اور کمرے بھری بیٹھکیں ہیں لیکن ان میں بھی سکوت ہے۔ ہر بچہ اپنے موبائل کی دنیا میں قید ہے۔ وہ ہنسی جو کبھی کھیل کے میدانوں سے سنائی دیتی تھی، اب چیٹنگ کی اسکرین پر لفظوں میں گھٹ کر رہ گئی ہے یہ نسل کمزور ہے، نہ صرف جسم سے بلکہ دل سے بھی، چھوٹا سا امتحان ہو یا کھیل میں ہار، یہ ایسے ٹوٹتے ہیں جیسے کچے گھڑے پر پتھر لگ جائے ہم جس دور میں بڑے ہو رہے تھے اس وقت کھیل کود میں گر کر گھٹنے چھلتے تھے مگر ہم پھر بھی ہنستے تھے یہ نسل ذرا سا دباؤ آئے تو سسکنے لگتی ہے ان کی آنکھوں میں سورج کی کرنوں کا عکس نہیں، موبائل کی اسکرین کی نیلگوں روشنی ہے رشتے ان کے لیے بوجھ بن چکے ہیں رشتہ داروں کی محفل میں جانا ان کے لیے سزا ہے،دوستوں کے ساتھ بیٹھک اجنبی لگتی ہے یہ اپنی خوشیاں، غم اور باتیں سب کسی ورچوئل دوست کے ساتھ بانٹتے ہیں اصل دنیا میں تعلقات کمزور ہو رہے ہیں اور مصنوعی دنیا میں رشتے بڑھ رہے ہیں۔
اخلاقیات کا حال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔
اخلاقی حوالوں سے بھی یہ نسل خطرناک خلا میں ہے اچھائی اور برائی کی پہچان دھندلا گئی ہے۔ جسے یوٹیوب اور انسٹاگرام پر شہرت مل گئی، وہی ان کا ہیرو ہے۔ جس نے لائکس کما لیے، وہی ان کی نظر میں کامیاب ہے۔ کردار اور اخلاق اب پرانی کتابوں کے قصے لگتے ہیں، پہلے بچے ہیروز کو کتابوں میں ڈھونڈتے تھے، اب انسٹاگرام پر۔ پہلے کامیابی ڈگری، ہنر اور کردار میں تھی، اب لائکس اور فالوورز میں ہے۔ آج کے بچوں کا ہیرو وہ ہے جو ایک وائرل ویڈیو بنا لے، چاہے اس میں اخلاقیات کی دھجیاں ہی کیوں نہ اڑائی گئی ہوں لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ یہ وہ نسل ہے جس کے ہاتھ میں دنیا کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ انٹرنیٹ، مصنوعی ذہانت، چیٹ جی پی ٹی یہ وہ ہتھیار ہیں جن سے دنیا کے نقشے بدل سکتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ نسل ان ہتھیاروں کو ہتھیار ہی رکھے گی یا اوزار بنا کر اپنی زندگی سنوارے گی؟ کیا یہ صرف صارف رہیں گے یا خالق بننے کا ہنر سیکھیں گے؟ یہ نسل ایک ایسے دو راہے پر کھڑی ہے جہاں ایک طرف مصنوعی دنیا کی جھوٹی چمک ہے اور دوسری طرف وہ روشنی جو کردار اور محنت سے آتی ہے۔ اگر یہ پہلے راستے پر چل نکلی تو آنے والے برسوں میں ہمارے پاس ایک ہجوم ہوگا جس کے ہاتھوں میں موبائل تو ہوں گے مگر دل خالی، جس کی آنکھوں میں علم تو ہوگا مگر بصیرت نہیں۔ اور اگر یہ دوسرا راستہ اپنائے تو یہ نسل پاکستان کی سب سے بڑی طاقت بن سکتی ہے۔
اصل سوال ہم بڑوں سے ہے۔ کیا ہم ان کا ہاتھ تھام کر انہیں روشنی کی طرف لے جائیں گے؟ یا ہم بھی اپنی غفلت کی چادر اوڑھ کر یہ سمجھ بیٹھیں گے کہ ٹیکنالوجی ہی تربیت ہے؟ یاد رکھیں، مستقبل کا فیصلہ آج کے بڑوں کے رویوں سے ہوگا۔ اگر ہم نے اپنی ذمہ داری پوری نہ کی تو یہ نسل صرف اسکرین کی چمک میں اپنی اصل چمک کھو بیٹھے گی۔

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International