rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
انسان آج سے تقریباً سات آٹھ ہزار سال قبل اس دھرتی پہ اتارا گیا، جب کھانے پینے اور رہنے سہنے کا کوئی معقول انتظام نہ تھا،درختوں سے توڑ کے پھل کھا لیے اور درختوں کی چھال سے تن کو ڈھانپ لیا، ضروریات زندگی تو میسر نہ تھیں, مگر زندگی سے زندگی پنپنے کو، روک کوئی نہ سکتا تھا، تو زندگی صحراوں، جنگلوں اور بیابانوں میں بھی پنپتی رہی، شگوفے پھوٹتے رہے اور انسان کی بھوک کا مداوا، اللہ پاک ہی کی پیدا کی ہوی بے شمار نعمتوں سے ہوتا رہا، کہ رازق نے ہر جاندار کو غیر مشروط فراہمی رزق کا وعدہ کر رکھا ہے.
بات بہت پرانی ہے یعنی پہیہ آج سے تقریباً پانچ ہزار پانچ سوپچیس سال قبل ایجاد ہوا, کیا ہے یہ پہییہ، یہ گول سی گھومنے والی ایک چیز ہے جو شروع میں لکڑی پھر لوہے اور آج کل کءی دھاتوں کی آمیزش سے بنای جاتی ہے، یہ پہیے کی ایجاد نے تو مانو انسان کی زندگی کا مفہوم ہی بدل کے رکھ دیا، انسان ایک دم سے ماڈرن ہو گیا، ترقی کی شاہراوں پہ پہلا قدم تھا، پہیے کی ایجاد، زینے کی پہلی سیڑھی تھا. پہیے کی ایجاداور پہیے کی ایجاد سے مجھے اپنی نظم دنیا کا چلن یاد آ گءی،
آپ بھی سنیے.
دنیا کا چلن
ابھی تو سیڑھی کے نچلے
پاے پہ بیٹھ
مجھ کو پکارتے ہو
ابھی تو راتوں کے رتجگے میں
مجھے صدا دے کے ہار تے ہو
اگر، بلندی پہ پہنچ کے بھی
مجھے پکارا
تو ہے محبت
وگرنہ ہیں
ساری جھوٹی باتیں
نری بناوٹ، نری شرارت
تو دنیا داری اور پہیے کی چال تقریباً ملتی جلتی سی ہے، تو انسان پہ جب رب کی مہربانی ہوی اور اللہ کو رینگتے ہوے انسان پہ رحم آیا تو انسانی ترقی کو پہیے لگانے کے لیے پہیے کی ایجاد عراق کے شہر میسوپو ٹوپیا میں کءی لوگوں نے مل جل کے کی، پہلے پہل پہیہ گھڑیوں اور برتنوں کی بناوٹ میں استعمال ہوتا رہا پھر آہستہ آہستہ اسے باربرداری کے لیے استعمال کیا جانے لگا، بات گدھا اور گھوڑا گاڑیوں سے سائیکل اور پھر موٹر سائیکل تک جا پہنچی اور اب بات ہر طرح کی گاڑیوں، روبوٹک گاڑیوں، بحری جہازوں، فضای جہازوں سے ڈرونز تک جا پہنچی ہے یعنی مالک نے اس خاک کے پتلے کو جسے فرشتوں سے سجدہ کروایا اور اتنا علم دیا تھا، جس کی وسعتیں لا محدود ہی نہیں، سمجھ سے بالاتر بھی ہیں، اس دینے والی پاک ذات کا کروڑہا شکر ادا کر کے بھی ہم اس کا شکر ادا کرنے سے قاصر ہیں. تو آج ہم صرف موٹر سائیکل تک ہی رہیں گے، موٹر سائیکل کی ایجاد 1865 میں ہوی، سائیکل کے ساتھ انجن کے اضافے نے انسانی زندگی کی کٹھنایوں کو بڑی حد تک کم. کر دیا اور اس دور سے آج تک یہ سواری، غریب غربا اور نچلے متوسط طبقے کے لیے ایک نعمت بیش بہا ہے،
موٹر سائیکل کم خرچ بالا نشیں قسم کی سواری ہے، ایک نعمت ہے اور اگر اسے عقلمندی اور ٹریفک کے قوانین کو مدنظر رکھ کر استعمال کیا جاے تو کیا ہی کہنے، مگر انسانی فطرت میں ناشکرے پن سے زیادہ اوچھے پن کا کیڑا اسے ٹکنے ہی نہیں دیتااور خواہ مخواہ ہی ذلیل و خوار کرواتا رہتا ہے، یہ بھی عطا کی بات ہے کہ رب کسے سر چشمہ ہدایت سے نوازتا ہے اور کسے بے ہدایتی اور ذلت کی سیاہ غاروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے، وہ جو ہدایت یافتہ ہیں وہ تو اس دو پہیوں والی باییک سے بھی فیض یاب ہو جاتے ہیں اور کچھ بھٹکے ہوے کبھی اس باییک پہ ٹریفک قوانین سے روگردانیوں اور بربادیوں کی ایک ایسی لمبی داستان مرتب کر جاتے ہیں کہ پھر جن کا ازالہ ہونا ناممکنات میں سے ہو جاتا ہے، ان ناہجاز وں میں سر فہرست ون ویلنگ کرنے والے، سپر مین سٹایل میں بایک چلانے والے، باییک کے اوپر لیٹ کے باییک چلانے والے، دونوں بازو یا دونوں ٹانگیں چھوڑ کے بایک چلانے والےاور ایک ہی باییک پہ چھ چھ نفوس بیٹھ کر ٹریفک قوانین کا مذاق اڑا کر، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کر کے اپنی ہی جان سے کھیل جانے والے بد نصیب اور احمق سر فہرست ہیں، چار جوان اتوار کی صبح موج مستی میں سڑک پہ بھاگے جا رہے تھے، تیز رفتاری کی بنا پہ جب ان سے آگے چلنے والے ٹرک نے اچانک بریک لگای، تو بایک اور بایک پہ سوار چاروں جوان ٹرک کے پہیوں تلے کچل کے قیمہ بن گیے، کیا گیا ٹرک یا ٹرک ڈرائیور کا، جان سے تو گیے ناں چار نفوس جنہوں نے موٹر باییک کو گاڑی سمجھ کے شوخی اور لاپرواہی کی انتہا ہی کر دی تھی، اللہ وسایا کے ایک سال سے لیکر چھ سال تک کے چھ بچے تھے، اس کی سالی کی مایوں تھیں، اب احسن طریقہ تو یہ تھا کہ تمام لوگ یا رکشہ کرواتے یا اوبر کرواتے اور عزت سے سالی کی مایوں میں شرکت کرتے مگر نہ جی گھرکی دیوڑھی میں کھڑی ہوی بایک کو بڑی گاڑی سمجھ کے آٹھ نفوس ٹھس ٹھسا کے بایک پہ کیکڑوں کی طرح چاروں طرف چمٹ گیے اور ہر سپیڈ بریکر پہ اس بری طرح سے اچھلتے کہ مانو ابھی گرے سو گرے اور پھر ایک بگڑے ہوے رییس کی گاڑی نے انھیں یوں ٹھوکر ماری کہ آدھے نفوس تو موقع پہ ہی جان کی بازی ہار گئے اور باقی جو بچے ان کے حالات پر صرف کف افسوس ہی ملا جا سکتا تھا، کسی کی ٹانگیں فریکچر تو کسی کے بازو، تو اگر ہم اور آپ اس بات کو پلے سے باندھ لیں کہ ہر معاملے میں میانہ روی اختیار کر لیں اور خواہ مخواہ کی دل پشوری سے باز آجائیں تو شاید پوری دنیا میں ہونے والے ان حادثات میں کچھ تو کمی آ جاے.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam Naureen cloud. Com