rki.news
تحریر: ڈاکٹر منور احمد کنڈے۔ ٹیلفورڈ۔ انگلینڈ۔
پنجابی زبان برصغیر کے دل کی دھڑکن ہے، ایک ایسا نغمہ جو صدیوں سے پنجاب کی ہوا، مٹی، پانی اور دلوں میں گونج رہا ہے۔ یہ محض بولی نہیں بلکہ دھرتی کی خوشبو ہے، مٹی کا لمس ہے، کھیتر میں لہلہاتی فصلوں کا سرگم ہے۔ اس کے الفاظ میں گندم کی بالیوں کی سنہری جھلک ہے، آم کے باغوں کی مہک ہے، اور دریاؤں کی روانی کا سکون ہے۔ اس زبان کا دامن اتنا وسیع ہے کہ پاکستان میں اس کی لغت تین ضخیم جلدوں میں مرتب کی گئی، اور یہ محض کتابیں نہیں بلکہ ایک تہذیبی خزانہ ہیں، جن میں ہر صفحہ ایک کہانی سناتا ہے۔
دیہات کی مٹی میں جمی اس زبان کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ وقت کی آندھیاں بھی انہیں اکھاڑ نہیں سکیں۔ پنجابی وہ ماں ہے جس نے اپنے بچوں کو بولنا سکھایا، چاہے وہ کسان کے کھیت میں کام کرنے والے ہاتھ ہوں یا کسی شہر کے چوک میں محنت کرنے والے مزدور۔ پنجاب کے ہر خطے کا اپنا لہجہ، اپنی مٹھاس اور اپنی پہچان ہے۔ مشرق میں لہجے کا رنگ کچھ اور، مغرب میں کچھ اور، مگر دل سب کے ایک ہیں۔ پنجابی زبان میں بولے گئے الفاظ کی ایک خاص موسیقیت ہے، جیسے ہر لفظ کے اندر کوئی ساز بج رہا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دیہات کے میلوں، شادی بیاہ کے گیتوں، لوک کہانیوں اور روزمرہ کے مکالموں میں یہ زبان سب سے نمایاں اور سب سے قریب محسوس ہوتی ہے۔
صوفی شعرا نے پنجابی کو عشقِ حقیقی کی زبان بنایا۔ بلھے شاہ نے کہا:
“بُلھیا کیہ جاناں میں کون”
یہ ایک ایسا جملہ ہے جو انسان کو اپنی ذات کے راز کی کھوج میں لے جاتا ہے۔ وارث شاہ نے ہیر رانجھا کی محبت کو امر کر دیا، اور اس کی تحریر آج بھی پنجاب کے دل کی دھڑکن ہے۔ شاہ حسین نے عشق کو لال لال دوپٹے میں لپیٹ کر پیش کیا، اور میاں محمد بخش نے سیف الملوک میں حقیقت اور خواب کو ایک ساتھ بُن دیا۔ پنجابی میں محبت بھی ہے، مزاح بھی، للکار بھی اور تسلی بھی۔
پنجاب کے لوک گیت اس زبان کی روح ہیں۔ شادی بیاہ پر گائے جانے والے “گھوڑیاں” اور “سوہنیے” محبت، امید اور خوشی کی کہانیاں سناتے ہیں۔ فصل کٹائی پر گائے جانے والے گیتوں میں کسان کی محنت اور شکرگزاری جھلکتی ہے۔ جیسے پرانے میلوں میں گونجتا ہوا گیت:
“ساچیاں محبتاں دلوں نئیں مٹدیاں، چاہے صدیواں بیت جان”
یہ گیت سن کر ہر پنجابی کا دل اپنے گاؤں کی گلیوں میں پہنچ جاتا ہے۔
پنجابی کہاوتیں صدیوں کی دانش اور تجربے کا نچوڑ ہیں:
“جو کجھ بوئے، اوہی کٹے” ۔ محنت اور انصاف کا سبق۔
“مانواں ٹھنڈیاں چھانواں” ۔ تعلق کی مٹھاس اور سکون۔
“ساچ کھرا ہوندا اے، پر کھرا ساچ نہ ہوندا” ۔ سچائی کی نزاکت اور بھاری پن۔
پنجاب کی تاریخی داستانیں بھی اس زبان کی گہرائی کو ظاہر کرتی ہیں۔ ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں۔ یہ محض کہانیاں نہیں بلکہ پنجاب کی روح کے حصے ہیں۔ جب وارث شاہ نے ہیر رانجھا کو لکھا تو اس نے صرف ایک محبت کی کہانی نہیں سنائی، بلکہ پنجاب کے سماج، رسم و رواج، اور انسان کے باطن کی پوری تصویر کھینچ دی۔
یہاں تک کہ دہلی کے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے بھی پنجابی شاعری میں اپنا حصہ ڈالا، جو اس بات کا گواہ ہے کہ اس زبان کی کشش سرحدوں، سلطنتوں اور بادشاہتوں سے ماورا ہے۔ یہ وہی بادشاہ ہیں جنہوں نے اردو اور فارسی میں بھی اپنا سکہ جمایا، مگر جب پنجابی میں طبع آزمائی کی تو اس زبان کی مٹھاس اور اثرانگیزی نے ان کو بھی اپنے رنگ میں رنگ دیا۔ یہ پنجابی کی مقبولیت کا ایک ایسا ثبوت ہے جس پر ہر پنجابی فخر کر سکتا ہے۔
پنجاب کے میلوں، بیساکھی کے جوش، بسنت کے رنگ، ڈھول کی تھاپ، اور جھومر کے قدم۔ یہ سب پنجابی کے سینے میں دھڑکتے ہیں۔ لوریوں میں ماں کی ممتا، قہقہوں میں یاروں کی مستی، اور غزلوں میں عاشق کی تڑپ ۔ سب کچھ اس زبان کا حصہ ہے۔ پنجابی سننا گویا گھر کی دہلیز پر بیٹھ کر شام کے سورج کو دیکھنا ہے، جہاں روشنی بھی سنہری ہو اور ہوا بھی میٹھی۔
پنجابی صرف محبت کی زبان نہیں، یہ حوصلے کی بھی زبان ہے۔ جنگ آزادی کے مجاہدین، کسان تحریک کے رہنما، اور عام لوگ جب حق کے لئے کھڑے ہوئے تو ان کی للکار پنجابی میں ہی تھی۔ یہ زبان گلی کوچوں کی گپ شپ میں بھی ہے اور محفلِ مشاعرہ کی سنجیدگی میں بھی۔
یہ محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ نسلوں کا ورثہ ہے۔ یہ کھیتوں کی سرسبزی، دریاؤں کی روانی، پہاڑوں کی خاموشی، اور بازاروں کی رونق ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی صورتیں بدلتی رہیں، لہجے نئے آتے رہے، مگر اس کا دل وہی رہا۔ وسیع، کھلا، اور محبت سے بھرا ہوا۔ پنجابی نہ صرف اپنے بولنے والوں کی شناخت ہے بلکہ ایک ایسی آواز ہے جو سرحدوں سے آزاد ہو کر انسانیت کے دل تک پہنچتی ہے۔
پنجاب کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی نے اپنی مٹی کی بات کی، پنجابی نے اس میں جان ڈال دی۔ چاہے وہ کسان کی کھیتوں میں محنت ہو، مجاہد کا میدانِ جنگ میں حوصلہ ہو، یا عاشق کا کسی کی گلی میں گیت گانا۔ پنجابی نے ہمیشہ اپنا کردار نبھایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ زبان آج بھی محبت، عزت اور فخر کی علامت ہے۔
پنجابی کے صوفیانہ کلام میں انسانیت، محبت اور مساوات کا وہ پیغام ہے جو وقت کی قید سے آزاد ہے۔ بلھے شاہ کے اشعار، شاہ حسین کی کافی، سلطان باہو کے بیت ۔ یہ سب دل کو جھنجھوڑتے ہیں اور روح کو پاکیزگی دیتے ہیں۔
پنجابی بولیاں اور کہاوتیں مساوات اور وحدت کا پیغام دیتی ہے۔
یہ زبان ہماری پہچان ہے، ہماری جڑ ہے، ہمارا فخر ہے۔ جس دھرتی پر بلھے شاہ، وارث شاہ، شاہ حسین، اور میاں محمد بخش پیدا ہوئے، وہ زبان کبھی ماند نہیں پڑ سکتی۔ پنجابی صرف بولی نہیں، دھڑکن ہے۔ اور دھڑکن کو خاموش کرنا ممکن نہیں۔ پنجابی کی مٹی، اس کے گیت، اس کی کہاوتیں، اس کے قہقہے۔ یہ سب ہمیشہ زندہ رہیں گے، کیونکہ یہ دل سے نکلتے ہیں اور دل تک پہنچتے ہیں۔