rki.news
تحریر احسن انصاری
اردو زبان برصغیر کی تہذیبی روح، تاریخی ارتقاء اور جغرافیائی تنوع کی نمائندہ ہے۔ یہ زبان نہ صرف ایک لسانی وسیلہ ہے بلکہ ایک ثقافتی ورثہ بھی ہے جو صدیوں پر محیط تاریخ، مختلف قوموں کے میل جول اور تہذیبی تبادلوں کا نتیجہ ہے۔ اردو کی جڑیں تیرہویں صدی میں دہلی سلطنت کے دور میں ملتی ہیں، جب مسلمان فاتحین نے ہندوستان میں قدم رکھا اور عربی، فارسی، ترکی جیسی زبانیں اپنے ساتھ لائیں۔ ان زبانوں کا اختلاط مقامی بولیوں سے ہوا، جس کے نتیجے میں ایک نئی زبان نے جنم لیا، جسے ابتدا میں “ہندوی” یا “ریختہ” کہا جاتا تھا۔
اردو زبان کا ارتقاء محض لسانی سطح پر نہیں بلکہ سماجی، سیاسی اور ادبی میدانوں میں بھی ہوا۔ مغلیہ سلطنت کے دور میں اردو نے درباری زبان کا درجہ حاصل کیا اور شاعری، نثر، خطابت اور انتظامی امور میں استعمال ہونے لگی۔ دکن کے سلاطین نے اردو کو فروغ دیا، جہاں دکنی اردو نے ایک منفرد ادبی رنگ اختیار کیا۔ اس دور میں اردو شاعری نے اپنے ابتدائی نقوش چھوڑے، جن میں ولی دکنی، نصرتی اور سراج جیسے شعرا شامل ہیں۔
اردو زبان کی ترقی میں دہلی اور لکھنؤ کے مراکز نے کلیدی کردار ادا کیا۔ دہلی میں میر، سودا اور غالب جیسے شعرا نے اردو کو فکری گہرائی اور جمالیاتی بلندی عطا کی، جب کہ لکھنؤ میں انیس اور دبیر نے مرثیہ نگاری کو عروج بخشا۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں اردو ادب نے اپنی الگ شناخت قائم کی، اور یہ زبان برصغیر کے مسلمانوں کی تہذیبی علامت بن گئی۔
برطانوی دور میں اردو کو فارسی کی جگہ سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔ 1837ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اردو کو شمالی ہندوستان میں دفتری زبان کے طور پر نافذ کیا۔ اس اقدام نے اردو کو تعلیمی اداروں، عدالتوں اور انتظامی دفاتر میں رائج کر دیا۔ اس دور میں اردو صحافت نے بھی جنم لیا، اور “جامِ جہاں نما” جیسے اخبارات نے اردو کو عوامی سطح پر پہنچایا۔
اردو زبان کی جغرافیائی اہمیت بھی غیر معمولی ہے۔ پاکستان میں اردو قومی زبان ہے اور مختلف صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ اگرچہ صرف 15 فیصد پاکستانی اسے مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں، لیکن یہ پورے ملک میں سمجھنے اور بولنے والی زبان ہے۔ بھارت میں اردو چھ ریاستوں میں دفتری زبان کا درجہ رکھتی ہے، جن میں دہلی، بہار، اتر پردیش، تلنگانہ، جموں و کشمیر اور جھارکھنڈ شامل ہیں۔ بھارت میں تقریباً 5 فیصد لوگ اردو کو مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں، جو اسے وہاں کی چھٹی بڑی زبان بناتی ہے۔
اردو زبان نیپال میں ایک رجسٹرڈ علاقائی بولی ہے، جب کہ جنوبی افریقہ میں آئینی طور پر محفوظ زبان کے طور پر تسلیم کی گئی ہے۔ افغانستان، بنگلہ دیش، خلیجی ممالک، یورپ اور امریکہ میں بھی اردو بولنے والوں کی بڑی تعداد موجود ہے، جو بنیادی طور پر جنوبی ایشیا سے ہجرت کرنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ اس عالمی پھیلاؤ نے اردو کو ایک بین الاقوامی زبان بنا دیا ہے، جو مختلف ثقافتوں کو جوڑنے کا ذریعہ بن چکی ہے۔
اردو زبان کی سماجی اور ثقافتی اہمیت بھی قابلِ ذکر ہے۔ یہ زبان جنوبی ایشیائی ثقافت کا جوہر ہے، جو مختلف نسلی، مذہبی اور لسانی پس منظر رکھنے والے افراد کو جوڑتی ہے۔ اردو شاعری، نثر، اور صحافت نے برصغیر کی تہذیب کو وسعت دی ہے۔ غالب، میر، اقبال، فیض، جگر، احمد ندیم قاسمی، منٹو اور عصمت چغتائی جیسے ادیبوں نے اردو کو فکری، جمالیاتی اور سماجی سطح پر بلند مقام عطا کیا۔
اردو زبان نے قومی یکجہتی میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان میں یہ مختلف صوبوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے، جب کہ بھارت میں یہ مسلمانوں کی ثقافتی شناخت کی علامت ہے۔ اردو نے مختلف لسانی پس منظر رکھنے والے افراد کو ایک مشترکہ زبان فراہم کی ہے، جو باہمی افہام و تفہیم کو فروغ دیتی ہے۔ شہری مراکز میں، جہاں مختلف زبانیں بولنے والے افراد اکٹھے ہوتے ہیں، اردو ایک پل کا کام کرتی ہے جو تجارت، تعلیم اور سماجی تعامل کو ممکن بناتی ہے۔
جدید دور میں اردو نے ڈیجیٹل دنیا میں بھی اپنی جگہ بنا لی ہے۔ سوشل میڈیا، آن لائن اخبارات، بلاگز اور موبائل ایپس نے اردو کو نئی زندگی دی ہے۔ اردو ادب کی ڈیجیٹلائزیشن، آن لائن نیوز پورٹلز، اور اردو میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز زبان کے ورثے کے تحفظ میں معاون ہیں۔ نوجوان نسل اب اردو میں اظہارِ خیال کو فخر سمجھتی ہے، جو اس زبان کے مستقبل کے لیے خوش آئند ہے۔
اردو زبان کا فنی اظہار بھی اس کی اہمیت کو بڑھاتا ہے۔ اردو شاعری میں غزل، نظم، مرثیہ، رباعی اور ہائیکو جیسے اصناف نے زبان کو جمالیاتی بلندی عطا کی ہے۔ اردو نثر میں افسانہ، ناول، خاکہ، انشائیہ اور تحقیق نے زبان کو فکری وسعت دی ہے۔ اردو صحافت نے عوامی شعور کو بیدار کیا، جب کہ اردو خطابت نے سیاسی اور سماجی تحریکوں کو تقویت دی۔
اردو زبان کا تعلق صرف ماضی سے نہیں بلکہ حال اور مستقبل سے بھی ہے۔ یہ زبان نہ صرف تاریخی ورثہ ہے بلکہ ایک زندہ، متحرک اور ترقی پذیر زبان ہے۔ اردو کی حفاظت، فروغ اور تدریس ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے تاکہ یہ زبان آنے والی نسلوں تک اپنی اصل روح کے ساتھ پہنچ سکے۔
اردو زبان ایک تہذیبی، تاریخی اور جغرافیائی سنگم ہے۔ یہ زبان برصغیر کی روح ہے، جو مختلف قوموں، مذاہب اور ثقافتوں کو جوڑتی ہے۔ اردو نہ صرف ماضی کی یادگار ہے بلکہ مستقبل کی امید بھی ہے۔ اس کی وسعت، گہرائی اور خوبصورتی اسے دنیا کی عظیم زبانوں میں شامل کرتی ہے۔