آج کے اس خصوصی انٹرویو میں ہم نے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کی بانی محترمہ عائشہ مقصود باجوہ صاحبہ سے گفتگو کی۔ انٹرویو کا آغاز سلام و دعا سے ہوا، انہوں نے محبت اور اخلاص سے جواب دیا: “وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ”۔
عائشہ مقصود باجوہ نے اپنا مکمل تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ ان کا نام عائشہ مقصود باجوہ ہے اور وہ خود کو “علامہ اقبال کی شاہین اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امتی” کہتی ہیں۔ ان کا آبائی گاؤں داتا زیدکا، ضلع سیالکوٹ ہے۔ وہ ایک کسان گھرانے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے والد پاکستان آرمی میں حوالدار تھے جنہوں نے اکتوبر 1965 میں فوج میں شمولیت اختیار کی اور 1971 کی جنگ میں حصہ لیا۔ حوالدار کے عہدے سے ہی وہ ریٹائرڈ ہوئے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے گوجرانوالہ کے ایک انگلش اسکول سے حاصل کی جبکہ اعلیٰ ثانوی تعلیم قلعہ کالروالا کے ایک نجی ادارے سے مکمل کی۔
سیاست میں آنے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں کم عمری سے ہی سیاست میں دلچسپی تھی اور وہ نوجوانی میں مسلم لیگ (ن) کی بھرپور حمایت کرتی تھیں۔ تاہم، 2019 میں انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا اور نومبر 2019 کے آخر میں ربیع الاول کے مہینے میں سوشل میڈیا پر پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ 2018 سے 2019 تک شریف خاندان کی رہائی اور عمران خان کے استعفے کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔ آزادی مارچ میں ان کی خواہش پوری ہوئی کہ تمام جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئیں لیکن بعد ازاں مایوسی ہوئی، کیونکہ عمران خان کا استعفیٰ نہ ہوا بلکہ نواز شریف بیرونِ ملک چلے گئے۔ اسی موقع پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ دوسروں کے سہارے کی بجائے خود آگے بڑھ کر اپنی نظریاتی جماعت تشکیل دیں۔
اپنے سیاسی رول ماڈلز کے بارے میں سوال پر محترمہ عائشہ مقصود باجوہ نے کہا کہ ان کے اصل رہنما نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، خلفائے راشدین اور حضرت عمر بن عبدالعزیز ہیں۔ جدید دور میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبال، قائداعظم محمد علی جناح اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان ان کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ علامہ اقبال محض شاعر نہیں بلکہ بہترین سیاستدان اور صوفی بزرگ بھی تھے جنہوں نے 1930 کے خطبہ الہ آباد میں پاکستان کا تصور پیش کیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے دو قومی نظریہ پیش کرکے پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔
خواتین کی سیاست میں شرکت پر انہوں نے کہا کہ خواتین کو سیاست میں ایک مخصوص حد تک اسلام کے دائرہ کار میں رہ کر کردار ادا کرنا چاہیے، لیکن وہ ہیڈ آف اسٹیٹ کے طور پر نہیں ہونی چاہییں۔ سماجی خدمات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی خدمت قوم کو صحیح رہنمائی دینا اور سیاسی شعور فراہم کرنا ہے۔ وہ محدود وسائل میں رہتے ہوئے ضرورت مندوں کی مدد بھی کرتی ہیں۔
نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بچہ ماں اور باپ دونوں سے سیکھتا ہے، اس لیے دونوں والدین کا باشعور اور مہذب ہونا ضروری ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ نوجوان نسل کو قرآن و سنت اور اسوہ صحابہ کے قریب لایا جائے تاکہ ان کی کردار سازی بہتر ہو۔
موجودہ سیاسی حالات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سب سے بڑی اصلاح عوام میں آنی چاہیے۔ عوام کو محض نعروں کی بجائے ایماندار اور نظریاتی لیڈر کا انتخاب کرنا ہوگا۔ انہوں نے اداروں جیسے الیکشن کمیشن، عدلیہ اور بیوروکریسی کی ایمانداری پر زور دیا اور کہا کہ آرمی چیف کو بھی کسی جماعت کے مفاد میں فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔
ملک میں بڑھتی مہنگائی اور بے روزگاری کے حل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کرپشن تمام مسائل کی جڑ ہے۔ ان کے پاس ایک جامع معاشی پروگرام موجود ہے جس میں پرائیویٹ بینکوں کو ختم کرنا بھی شامل ہے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ تعلیم کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ان کی پالیسی میں یونیورسٹی تک مفت تعلیم شامل ہے، صرف پاکستان کے شہریوں کے لیے نہیں بلکہ غیر ملکی طلبہ کے لیے بھی۔
سیلابی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے حکومت کی سخت نااہلی اور بے حسی پر تنقید کی اور کہا کہ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ بیرون ملک دوروں اور ذاتی مصروفیات میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیلاب متاثرین کے لیے فوری مالی امداد اور مناسب اقدامات نہ ہونے کے باعث عوام کو ناقابلِ تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ شریف خاندان نے اپنی ملیں بچانے کے لیے آبادیوں کی طرف بند توڑنے کا حکم دیا۔
نوجوان نسل کو سیاست کی طرف راغب کرنے کے حوالے سے انہوں نے قرآن کی آیت “إِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ” (الرعد: 11) پڑھ کر سنائی جس کا ترجمہ ہے: “بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔” ان کا کہنا تھا کہ اگر اہل، ایماندار اور متوسط طبقے کے لوگ سیاست میں نہیں آئیں گے تو پھر کرپٹ اور جاہل عناصر سیاست پر قابض رہیں گے۔
انہوں نے زور دیا کہ تبدیلی صرف چہرے بدلنے سے نہیں آتی، بلکہ عوام کو اپنی سوچ اور انتخاب درست کرنا ہوگا۔ ان کے مطابق پاکستان کو قرآن و سنت کے ساتھ جڑنے کی ضرورت ہے۔ اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اگر زندگی رہی تو ان کی جماعت ان شاء اللہ اقتدار میں آئے گی اور حقیقی عوامی انقلاب برپا کرے گی۔
انٹرویو کے اختتام پر انہوں نے عوام کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ “قرآن و حدیث کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں، سچائی اور انسانیت سے محبت کریں اور حق دار کو ووٹ دیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی غریب عوام کی جماعت ہے۔ جب غریب ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے تو اشرافیہ کا نظام ختم ہوگا۔”
ان کا نعرہ تھا:
“پاکستان بنانے کا مقصد کیا؟ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ﷺ”
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کا منشور ہے کہ امیر اور غریب کے لیے ایک قانون ہو اور ایک دن غریب کی بیٹی ملک کی وزیر اعظم بنے۔
انٹرویو کے آخر میں محترمہ عائشہ مقصود باجوہ نے کہا:
“اسلام زندہ باد، پاکستان پائندہ باد” اور خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔