rki.news
از قلم : سہیل ساحل ، مدیر، اہل قلم ، لکھنئو۔
ڈاکٹر تبسم آراء کی تصنیف کردہ کتاب”انشائیہ نگار خواتین آزادی کے بعد”
اردو ادب کے لئے نہ صرف ایک کامیاب اثاثہ ہے بلکہ خواتین کی ادبی خدمات اور ان کی انشائیہ نگاری کے فکری اذہان پر مبنی ایک نادر و نایاب تحقیقی نمونہ بھی ہے۔ یہ کتاب جہاں ایک طرف ادبی دنیا میں خواتین انشائیہ نگاروں کی خدمات کو اجاگر کرتی ہے وہیں دوسری طرف یہ ایک فکری تحریک کی پیش رو بھی نظر آتی ہے۔ آزادی کے بعد کے تاریخی اور سماجی پس منظر میں ڈاکٹر تبسم آراء نے خواتین کی تحریری جدوجہد کو نہایت باریک بینی سے بیان کیا ہے تاکہ قارئین خود احاطہ کر لیں کہ کس طرح خواتین نے سماج کے بندھے ٹکے اصولوں اور ضابطوں کی دہلیز لانگھ کر اپنے فکری اظہار کو آزاد فضا میں سانس لینا سکھایا ۔
بتاتا چلوں کہ کتاب کی مرکزی کڑی خواتین کی انشائیہ نگاری ہے جو آزادئ ہند کے بعد کے عہد میں ترقی کی نئی راہیں ہموار کرتی ہے۔میں نے جب کتاب کا مطالعہ کیا تو بیشک میں مصنفہ کی اس رائے کا قائل ہو گیا کہ آزادی کے بعد کی نسوانی قلمکاروں نے اپنے ان مضامین میں صرف جذبات و خیالات کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنے قلم کے ذریعے انہوں نے معاشرتی بے راہ روی اور ناخواندگی پر تحریری چابک کسا ہے،نیز اصلاح معاشرہ کا بھی فریضہ انجام دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب عورت کی فکری آزادی، اجتماعی شعور اور تخلیقی قوت کو عملی جامہ پہناتی ہوئی نظر آتی ہے۔
کتاب میں مختلف خواتین انشائیہ نگاروں کی تخلیقات کا نہایت منظم اور گہرائی سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر تبسم آراء نے ہر انشائیہ نگار کی تحریر کو موضوع کی حساسیت، اسلوب تحریر کی ادبی نزاکت، فکری جدت اور سماجی اثرات کی روشنی میں پرکھا ہے۔ انہوں نے یہ واضح کیا ہے کہ ہر انشائیہ نہ صرف ایک ادبی تخلیق ہے بلکہ ایک فکری دستاویز بھی ہے جو معاشرتی حقیقتوں کو بیان کرتا ہے۔
کتاب میں خواتین کے مختلف سماجی مسائل جیسے تعلیمی عدم مساوات، خاندانی پابندیاں، طبقاتی تفریق، معاشرتی دھمکیاں اور سیاسی محرومیاں وغیرہ کو نہایت جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ مصنفہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے یہ موضوعات مختلف زاویے سےپیش کئے ہیں تاکہ قاری نہ صرف ماضی کی جھلک دیکھ سکے بلکہ موجودہ دور کی فکری پیچیدگیوں پر بھی روشنی پڑے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ اس کتاب کے ہر باب میں مصنفہ نے حوالہ جات، تاریخی پس منظر، اقتباسات اور علمی دستاویزات کا عمدہ امتزاج شامل کیا ہے جو تحقیق کی گہرائی اور مضبوطی کو اجاگر کرتا ہے۔
کتاب کی خاص خوبی اس کا تفصیلی تجزیہ ہے کہ کس طرح خواتین نے آزادی کے بعد اپنے تحریری انداز سے معاشرتی رکاوٹوں کو عبور کیا۔ ڈاکٹر تبسم آراء نے نہایت مہارت سے یہ بیان کیا ہے کہ خواتین انشائیہ نگاروں نے اپنی تحریر کو ایک علمی، سماجی اور فکری تحریک کے طور پر استعمال کیا تاکہ قاری کو نہ صرف مسائل کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے بلکہ ان کے حل کی سمت بھی رہنمائی فراہم کی جائے۔
تحریری جدوجہد کے دوران خواتین نے موضوعات کی وسعت کو اس انداز سے اپنایا کہ ہر مسئلہ زندگی کی ایک حقیقت کی مانند سامنے آیا۔ خواتین کی تحریروں میں تعلیم کی اہمیت، سماجی برابری، آزادئی رائے، اخلاقی ذمہ داری ،انسانی حقوق اور جدید دور کی پیچیدگیاں شامل ہیں۔ ڈاکٹر تبسم آراء نے ان سب موضوعات کو نہایت سلیقے سے ترتیب دیا ہے تاکہ قاری ہر انشائیے میں ایک نیا زاویہ حاصل کر سکے۔
مطالعے کے بعد میں وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ مصنفہ نے اس کتاب کی تحقیق میں علمی معیار کی بھرپور پاسداری کی ہے۔ حوالہ جات کا درست استعمال، علمی کتابوں اور تحقیقی مقالات کی مدد سے موضوع کی وضاحت اور ہر نظریے کی تائید کے لیے مستند دستاویزات کا حوالہ دیا جانا اس کی تحقیق کی مضبوطی کو ظاہر کرتا ہے۔ زبان نہایت سلیس اور رواں ہے، جو قاری کو بآسانی اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ تحریر میں ادبی نزاکت اور منطقی ترتیب کے ساتھ علمی استدلال بھی شامل ہے، جو اسے تحقیقی کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک فکری سفر بھی بنا دیتی ہے۔
مجموعی طور پر “کتاب انشائیہ نگار خواتین آزادی کے بعد” اردو ادب میں خواتین کی ادبی خدمات کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرنے اور ان کی فکری جدوجہد کو اجاگر کرنے میں ایک نہایت اہم مقام رکھتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف اردو ادب کے طلبہ و طالبات ,اساتذہ اور محققین کے لیے قیمتی ذریعہ علم ہے بلکہ ہر علم دوست شخص کے لیے بھی ضروری مطالعہ ہے جو معاشرتی شعور اور فکری ترقی کی گہرائیوں میں جانا چاہتا ہے۔ ڈاکٹر تبسم آراء کی یہ تصنیف معاشرتی ترقی اور فکری بیداری کی سمت روشن کرتی ہے اور قارئین کو معاشرتی تبدیلی کے لیے عملی سوچ اپنانے کی دعوت دیتی ہے۔
مذکورہ کتاب ڈاکٹر تبسم آرا کی ایک نمایاں تحقیقی تصنیف ہے جو انشائیہ نگار خواتین کے ادبی سفر، خدمات اور ان کے انفرادی و اجتماعی تجربات پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس کتاب میں خاص طور پر آزادی کے بعد کے دور میں لکھنے والی خواتین کی ادبی خدمات کو نہایت گہرائی سے پیش کیا گیا ہے۔ تبسم آرا نے خواتین انشائیہ نگاروں کی تحریروں کو محض ادبی زاویے سے نہیں دیکھا بلکہ انہیں ایک سماجی، تاریخی اور فکری تناظر میں بھی پرکھا ہے۔
کتاب کا بنیادی موضوع خواتین کے اظہار خیال کی آزادی، معاشرتی رکاوٹوں اور ادبی جدوجہد کی عکاسی ہے۔ تبسم آرا نے مختلف انشائیہ نگار خواتین کے اسلوبِ تحریر ،ان کے خیالات، ادبی تحریکات اور ذاتی تجربات کا انتہائی فصاحت و بلاغت کے ساتھ تجزیہ کیا ہے۔ کتاب میں ان خواتین کی تحریروں کے فنی اقدار، ان کے موضوعات اور اسلوب بیان پر خاصہ زور دیا گیا ہے تاکہ قاری کو ان کی جدوجہد اور ادبی خدمات کا مکمل ادراک ہو سکے۔
کتاب میں شامل انشائیہ نگار خواتین کے انفرادی تجربات کو سماجی و سیاسی پس منظر سے جوڑا گیا ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ آزادی کے بعد خواتین کی تحریر میں کیا تبدیلیاں آئیں اور کس طرح ان کی تحریریں سماجی شعور بیدار کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔ تبسم آرا نے اس تحقیق کو نہایت علمی انداز میں ترتیب دیا ہے اور کثیر حوالہ جات ،مستند تحقیقی مواد اور متنوع مثالوں سے کتاب کو جامع بنایا ہے۔
کتاب “انشائیہ نگار خواتین آزادی کے بعد” ایک تحقیقی و تنقیدی مطالعہ ہے جو آزادی کے بعد کے دور میں اردو انشائیہ نگار خواتین کی ادبی خدمات ،ان کے اسلوب، خیالات اور جدوجہد کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ تحقیق خواتین کے اظہارِ خیال ،ادبی میدان میں ان کی شرکت اور ان کی سماجی و سیاسی شعور کی ترقی پر مبنی ہے۔
مختصر یہ کہ مجھے یہ کتاب نہایت معلوماتی اور تحقیقی لحاظ سے پر اثر لگی۔ تبسم آرا نے موضوع کی گہرائی سے تحقیق کی ہے اور خواتین انشائیہ نگاروں کی تحریروں کو ایک علمی فریم ورک میں پیش کیا ہے جو قاری کے لیے نہایت قابل استفادہ ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین نے کس حد تک ادبی میدان میں اپنی جگہ بنائی اور اپنی آواز کو معاشرتی رکاوٹوں کے باوجود بلند کیا۔ یہ کتاب خاص طور پر تحقیق پسند افراد ،طالبعلموں، اساتذہ اور خواتین کی ادبی خدمات کے مطالعہ میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک لازمی مطالعہ ہے۔
میری نظر میں تبسم آرا کی یہ کتاب اردو ادب میں خواتین کے کردار کی ایک قیمتی دستاویز ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے بھی راہنما ثابت ہوگی۔مصنفہ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔اللّٰہ اُنکے قلم کو مزید توانائی بخشے۔آمین
ڈاکٹر تبسم آراء